Bharat Express

Bharat Express Urdu Conclave:اردو زبان کے دم توڑنے کی بات کرنے والوں کو پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے دکھایا آئینہ

پروفیسر خواجہ محمد اکرام نے کہا کہ برطانیہ میں دس سال پہلے بولی جانے والی زبانوں میں چوتھے نمبر پر اردو تھی اور آج یہ تیسرے نمبر پر پہنچ گئی ہے اور خلیجی ممالک کی دوسری زبان آج اردو بن چکی ہے۔اس لئے جو لوگ یہ شکوہ کررہے ہیں کہ اردو دم توڑ رہی ہے تو یہ اعداد وشمار انہیں مکمل طور پر غلط ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔

دہلی کے اردو گھر میں بھارت ایکسپریس نیوز نیٹ ورک کی اردو ٹیم کی جانب سے بزم صحافت کے بینرتلے اردو کانکلیوکا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی ،سماجی اور تعلیمی میدان کے سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔کانکلیو کے دوسرے سیشن میں یونیورسٹیوں کے سینئر ترین اساتذہ اور ذمہ داران نے شرکت کی۔اس سیشن میں یونیورسٹی میں اردو صحافت کا کورس کے موضوع پر بات کی گئی ۔ دوسرے سیشن کا آغاز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینئر ترین استاذ اور سی آئی ایل کے سابق چیئرپرسن پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین  کے خطاب کے ساتھ ہوا ۔انہوں نے اپنے خطاب  میں کہا کہ  ہماری یونیورسٹی میں اردو صحافت کا جو کورس شروع ہوا وہ پہلی بار کسی یونیورسٹی میں پروفیسر محمد حسن نے شروع کیا تھا۔آج تقریباً چالیس سال مکمل ہوچکا ہے اور آج عالم یہ ہے کہ اردو کا کوئی بھی بڑا میڈیا ادارہ ایسا نہیں ہے جس میں جے این یو سے کورس کرنے والے صحافی نہ ہوں۔

خواجہ اکرام الدین نے اردو صحافت کو لیکر مایوسی  کا شکوہ کرنے والوں کو بھی جواب  دیا اور کہا کہ کب تک روئیں گے،کتنا مرثیہ کریں گے۔ کس نے کہہ دیا کہ اردو یا اردو صحافت دم توڑ رہی ہے۔سچائی تو یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں گیارہویں نمبر پر یہی اردو زبان ہے اورزبانوں کے ذریعے کلچرکو  پوری دنیا میں پھیلانے کے معاملے میں  اردو دوسرے نمبر کی زبان ہے۔ اسلئے آج دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں ہے جہاں کے ممالک میں اردو نہ بولی جاتی ہو۔آج امریکہ میں 20 سے زائد ایسی یونیورسٹیا ں جہاں بی اے سے پی ایچ ڈی تک کے کورسز اردو زبان میں ہورہے ہیں۔لندن ار زبان کی بھی کم وبیش یہی حالت ہے۔

پروفیسر خواجہ محمد اکرام نے مزید کہا کہ برطانیہ میں دس سال پہلے بولی جانے والی زبانوں میں چوتھے نمبر پر اردو تھی اور آج یہ تیسرے نمبر پر پہنچ گئی ہے اور خلیجی ممالک کی دوسری زبان آج اردو بن چکی ہے۔اس لئے جو لوگ یہ شکوہ کررہے ہیں کہ اردو دم توڑ رہی ہے تو یہ اعداد وشمار انہیں مکمل طور پر غلط ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پڑھنے اور سننے والوں کی تعداد کم نہیں ہوئی ہے،کمی تقاضے کے عین مطابق اپنے اندر تبدیلی لانے اور عوامی دلچسپی کو سمجھنے میں ہورہی ہے۔ جب تک آپ معیاری چیزیں نہیں پیش کریں گے،ڈیجیٹل  تقاضوں کے مطابق خود کو نہیں ڈھالیں گے،حالات کے مطابق چیزوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے تب تک آپ ایسے ہی شکوہ کرتے رہ جائیں گے۔

بھارت ایکسپریس۔