Bharat Express

کرناٹک کے پروفیسر نے کلاس میں مسلم طالب علم کو کہا ‘دہشت گرد’

جس طالب علم کو بظاہر دکھ ہوا ہے وہ کہتا ہے، “معذرت سے یہ نہیں بدل جاتا کہ آپ کیا سوچتے ہیں یا یہاں آپ اپنے آپ کو کیسے پیش کرتے ہیں۔”

کرناٹک کے پروفیسر نے کلاس میں مسلم طالب علم کو کہا 'دہشت گرد'

نئی دہلی، 28 نومبر (بھارت ایکسپریس): ایک ویڈیو منظر عام پر آیا ہے جس میں کرناٹک کی منی پال یونیورسٹی میں ایک مسلمان طالب علم کو کلاس میں مبینہ طور پر “دہشت گرد” کہنے کے بعد اپنے پروفیسر کا سامنا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں مسلم طالب علم اپنے پروفیسر سے کہتا نطر آیا  کہ  “اسلامی دہشت گردی مضحکہ خیز نہیں ہے۔ اس ملک میں مسلمان ہونا مضحکہ خیز نہیں ہے۔”   جب پروفیسر معافی مانگتا ہے تو طالب علم کہتا ہے کہ معافی مانگنے سے ان  کی سوچ نہیں بدلے گی۔

جس طالب علم کو بظاہر دکھ ہوا  ہے وہ کہتا ہے، “معذرت یہ نہیں بدلتی کہ آپ کیسے سوچتے ہیں یا یہاں آپ اپنے آپ کو کیسے پیش کرتے ہیں۔”

ایک ویڈیو جو اب سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی ہے، جس میں جھگڑے کے دوران موجود ایک طالب علم نے ریکارڈ کیا ہے، مسلم طالب علم کو اپنے پروفیسر سے ان کے مبینہ اسلامو فوبک ریمارکس پر سوال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس واقعے پر متعدد ٹوئٹر صارفین کی جانب سے ناراض ردعمل سامنے آیا ہے جو طالب علم کی حمایت میں سامنے آئے ہیں اور اس کی ہمت کی تعریف کی ہے۔

مسلم طالب علم، جس کا نام نہیں بتایا گیا، کلاس میں پروفیسر کی طرف سے مبینہ طور پر دہشت گرد کہنے پر حیران رہ گیا۔ “یہ لطیفے قابل قبول نہیں ہیں۔ نہیں! آپ میرے مذہب کے بارے میں مذاق نہیں کر سکتے ..وہ بھی اتنے خوفناک انداز میں،‘‘ طالب علم نے زور دے کر کہا۔

پروفیسر نے اپنی بات  کا احساس کرتے ہوئے مشتعل طالب علم کو “تم بالکل میرے بچے کی طرح ہو” کہہ کر صورتحال کو پرسکون کرنے کی کوشش کی، جس پر طالب علم نے جواب دیا، “اگر میرے والد نے میرے ساتھ ایسا کیا تو میں اس سے انکار کردوں گا۔”

پروفیسر نے پھر بھی حالات پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔‘‘ اس بات سے طالب علم اور بھی غصہ میں آ گیا اور بولا کہ ، “نہیں جناب، یہ کوئی مضحکہ خیز بات نہیں ہے۔ 26/11 مضحکہ خیز نہیں تھا۔ اسلامی دہشت گردی مضحکہ خیز نہیں ہے۔ اس ملک میں مسلمان ہونا اور ہر روز ان سب کا سامنا کرنا مضحکہ خیز نہیں ہے۔

جب ٹیچر نے دوبارہ اسے اپنا بیٹا کہہ کر مخاطب کرنے کی کوشش کی تو طالب علم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے ہی بیٹے کو ‘دہشت گرد’ کہیں گے۔

’’کیا آپ اپنے ہی بیٹے کو ایسے کہیں گے  ‘دہشت گرد’؟ آپ مجھے ایسے کیسے بلا سکتے ہو؟ وہ بھی  اتنے لوگوں کے سامنے، ایک کلاس میں۔ آپ پروفیسر ہیں۔”

آخر میں، پروفیسر کو معافی مانگتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ لیکن بظاہردکھی  ہوئے  طالب علم کا کہنا ہے، “معذرت یہ نہیں بدلتی کہ آپ کیسے سوچتے ہیں یا آپ یہاں اپنے آپ کو کیسے پیش کرتے ہیں۔”

Also Read