وقف ترمیمی بل سے متعلق جے پی سی کی میٹنگ ہوئی۔
وقف ترمیمی بل پرجمعرات کوجوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کی پانچویں میٹنگ ہوئی۔ اس میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی اورعام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے وزیرداخلہ امت شاہ کی بیان بازی پرسوال کھڑے کئے۔ میٹنگ میں مغل بادشاہ اکبر کی بیگم کا ذکرہوا۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ سنجے جیسوال نے کہا کہ اگر اکبر کی بیگم نے ملک کو وقف کے حوالے کردیا تو ہم مان لیں گے کیا؟ اس پر کانگریس رکن پارلیمنٹ ناصرحسین، عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ اور اسدالدین اویسی برہم ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اکبر ہزار سال پہلے بادشاہ تھا۔ اس وقت کو آج بیچ میں لاکربے ایمانی کی باتیں کی جارہی ہیں۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ کی بات سے ناراض لیڈران نے کہا کہ آج جمہوریت ہے۔ بے تکی طریقے سے لوگوں کو تقسیم کرنے والی اور فساد کرانے والی باتیں مت کیجئے۔ 1995 میں ایک گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعہ کہا گیا کہ وقف جائیداد کو سبھی ریاستوں میں نوٹیفائی کیا جائے۔ ہر 10 سال بعد اس کا ریویو کیا جائے۔ 12-2011 میں ایک محکمہ بنا، جس کے ذریعہ وقف کی سبھی جائیدادوں کو ڈیجیٹل کیا جانا تھا۔
کاغذات سے متعلق بھی ہوئی بحث
جے پی سی کے دوران سینکڑوں سال پرانی وقف کی جائیدادوں کے کاغذات کا ذکرآیا تو کانگریس کے اراکین پارلیمنٹ نے کہا کہ راشٹرکوٹ دور(جنوبی ہندوستان میں ہندوبادشاہوں کے دورمیں) مندروں، شمشان گھاٹوں کے لئے جگہ دی گئی تھی۔ اگراس کے کاغذات مانگے جائیں تو کیا وہ مل جائیں گے؟ میٹنگ میں دو اراکین کے درمیان اس وقت تلخ بحث ہوگئی، جب کمیٹی ایک قانونی ماہرکی رائے سن رہی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ میدھا کلکرنی قانونی ماہر فیضان مصطفیٰ سے وقف گورننگ کونسل کے ڈھانچے پرسوالات پوچھ رہے تھے۔ اسی دوران اپوزیشن کے راجیہ سبھا ممبران کے کچھ تبصروں پرجھگڑا ہوا۔
مسلم پرسنل لا بورڈ نے بل کی مخالفت کی
اس کے بعد میدھا کلکرنی نے اس رکن سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا، جس پرپہلے وہ راضی نہیں ہوئے۔ حالانکہ جے پی سی رکن نے کمیٹی کے چیئرمین اور بی جے پی رکن پارلیمنٹ اپراجیتا سارنگی کی موجودگی میں افسوس کا اظہارکیا۔ میدھا کلکرنی نے اس بات پرزور دیا کہ میٹنگ کے دوران وہ معافی مانگیں، جہاں انہوں نے تکلیف دہ تبصرہ کیا۔ جے پی سی کی میٹنگ میں آل انڈیا پسماندہ محاذ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نمائندے بھی پیش ہوئے۔ آل انڈیا پسماندہ محاذ کے نمائندوں نے بل کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پسماندہ طبقات کے مسلمانوں کو فائدہ ہوگا۔ حالانکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بل کی مخالفت کی۔ اسے مسلم طبقے کے مفاد کے خلاف بتایا۔
بھارت ایکسپریس–