Bharat Express

JPC

سینئر وکیل ہریش سالوے اور دیگر نمائندوں نے داؤدی بوہرہ برادری کے مذہبی عقائد اور کمیونٹی لیڈر سے منسلک اختیارات کا حوالہ دیتے ہوئے جے پی سی کی میٹنگ میں پرزور طریقے سے یہ دلیل دی کہ وقف بورڈ کو اس کمیونٹی کی جائیدادوں اور معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

جے پی سی کا اجلاس منگل 5 نومبر کو بھی جاری رہا۔ جے پی سی کی میٹنگ میں آل انڈیا ایڈوکیٹ کونسل کے نمائندوں اور تفتیش کار نے اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ وہیں، داؤدی ووہرا برادری کی جانب سے سینئر وکیل ہریش سالوے وقف (ترمیمی) بل پر اپنے خیالات پیش کر رہے ہیں۔

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کلیان بنرجی نے بھی اپنے رویے کے بارے میں وضاحت دی۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی ایم پی ابھیجیت گنگوپادھیائے نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی، ان پر ذاتی الزامات لگائے اور کرسی چھوڑ کر ان کے پاس آ گئے، اس کے باوجود چیئرمین نے انہیں نرم رویہ اختیار کرنے کو کہا، اس وجہ سے وہ ناراض ہو گئے۔

جگدمبیکا پال نے کہا کہ یہ ہم سب کے لیے گنگا جمنی ثقافت کو برقرار رکھنا ضروری ہے، جو ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے ہمارے آپسی اتحاد پر جو کچھ کہا وہ حالیہ برسوں میں واضح طور پر ظاہر ہوا، بالاکوٹ فضائی حملہ ہو یا ملک کو درپیش کوئی بحران،ہر وقت سب متحد نظرآئے ہیں۔

گلشن فاؤنڈیشن وقف بل کی حمایت کر رہی تھی۔ اسی دوران نریش مہاسکے نے کلیان بنرجی کو روکنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان تیکھی بحث ہوئی۔

بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے الزام لگایا کہ مفرور اسلامی بنیاد پرست ذاکر نائیک اور دیگر ہمارے ملک کے نوجوانوں میں انتشار پھیلانے اور انہیں وقف ترمیمی بل کے ذریعے حکومت کے خلاف کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔انہوں نے خط میں دعویٰ کیا ہے کہ جے پی سی کو جمع کرانے میں ذاکر نائیک کے کسی بھی  نیٹ ورک کے ملوث ہونے کی مکمل چھان بین کی جانی چاہئے۔

وقف ترمیمی بل پر جمعرات کو جے پی سی کی پانچویں میٹنگ ہوئی۔ سیاسی پارٹیوں کے اراکین کے ساتھ ہی مذہبی تنظیموں اورقانونی ماہرین کا موقف سنا گیا۔ میٹنگ میں بی جے پی رکن پارلیمنٹ نےمغل بادشاہ اکبرکی بیگم کا ذکرکیا توکانگریس، عام آدمی پارٹی اوراے آئی ایم آئی ایم رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی برہم ہوگئے۔

ذرائع کے مطابق جمعہ کے روز منعقدہ جے پی سی میٹنگ میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا اور تلنگانہ وقف بورڈ کے نمائندوں نے بھی تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بل کی مخالفت کی۔

ڈی ایم کے لیڈر  نے وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے پر سخت اعتراض ظاہر کیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں نے ضلع کلکٹروں کو دیے جانے والے اختیارات پر سوال اٹھائے۔

وقف ترمیمی بل پرپارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کا دوسرااجلاس ہوا۔ اس میں مسلم تنظیموں نے کہا کہ ہم ترمیم کو قبول نہیں کرتے۔ حکومت کواس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔