عید الفطر کے مبارک موقع پر اہل وطن کے نام میڈیا کو جاری اپنے پیغام میں امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ”ہم نے رمضان مکمل کرلیا ہے اور عید کی خوشیاں منا رہے ہیں۔ تمام اہل وطن کو عید کی خوشیاں مبارک ہو۔ اس اہم موقعے پرہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ رمضان کے روزوں کے کتنے مقاصد ہم نے حاصل کئے۔ اسلام میں ہر عبادت کا ایک ظاہری پہلوہوتا ہے اور ایک باطنی و روحانی۔ روحانی پہلو کے شعور کے بغیر عبادت کرلی جائے تو بظاہر عبادت تو ہوجاتی ہے لیکن اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ رمضان کے روزے رکھتے ہوئے ہم دن بھر کھانے، پینے سے رُکے رہیں، لیکن یہ یاد نہ رہے کہ روزے سے ہمیں اپنی شخصیت، دل کی کیفیت، مزاج، کردار اور رویے میں کیا تبدیلی لانی ہے تو بھوکا و پیاسا رہنے کے باوجود ہم روزے کے مقاصد سے محروم رہیں گے۔ اسی کی طرف رسول اللہؐ کے ایک قول میں اشارہ ہے کہ ” بہت سے ایسے روزہ دار ہیں جن کو سوائے بھوکا،پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘۔ اللہ ہم سب کی اس کیفیت سے حفاظت فرمائے“۔
قرآن مجید میں روزے کے چار مقاصد بیان کئے گئے ہیں: تقویٰ، شکر، رشد و ہدایت اور اللہ کی بڑائی و کبریائی بیان کرنے کی صفت انسان میں پیدا ہو۔رمضان المبارک کی تکمیل پر ہمیں پوری سنجیدگی سے جائزہ لینا ہے کہ یہ چاروں صفات ہمارے اندر کس حد تک پروان چڑھی ہیں۔ اللہ کے رسول ؐنے رمضان کو شہرِ صبر کہا ہے۔ روزہ جذبات و خواہشات پر کنٹرول کرنا سکھانا ہے،جبکہ بے صبری انسان کو خواہشات کا غلام بنا دیتی ہے جس سے انسان میں کئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ قرآن کی تعلیمات کے مطابق روزے کا مقصد تقویٰ، شکر، ہدایت، اللہ کی کبریائی بیان کرنا اور ناموافق حالات میں صبر کرنا ہے، یہی حاصلِ رمضان ہے۔ اگر یہ صفات امت مسلمہ میں پیدا ہوجائیں تو یقینا یہ امت ناقابل تسخیر، سب سے بااثر امت بن جائے، پھر امامت، قیادت، عروج اور سربلندی قدم قدم پر اس کا استقبال کرے گی۔ملک کے موجود حالات میں سب سے زیادہ ضرورت انہی صفات کی ہے۔ جب مشکلات اور آزمائشیں آتی ہیں تو یہ اللہ کی طرف سے قوموں کے حالات کو بدلنے، ِ ان کی اصلاح اوربڑی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے قابل بنانے کے لئے آتی ہیں۔اگر ہم نے رمضان کے روزوں سے صحیح سبق اور تربیت حاصل کی تو انشاء اللہ ہم پہلے سے زیادہ طاقتور اور مضبوط بنیں گے۔
عید الفطر ہم ایک ایسے ماحول میں منا رہے ہیں جب پورے ملک میں عام انتخابات کا ماحول ہے۔ خیر امت ہونے کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اس ملک میں امن و امان اور عدل و انصاف کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ ووٹ دینا ہماری شہری ذمہ داری ہے اورحکمت و تدبیر اور دانائی کا بھی تقاضہ ہے کہ اللہ کے بندے کو انصاف اور امن فراہم کرنے کے لئے ہم ہر موقعے کا استعمال کریں۔ لہٰذا ہم ہر طرح کے تعصب، وقتی مفاد اور منفی سوچ سے اوپر اٹھ کر بہتر سے بہتر نمائندوں کو خود بھی ووٹ دیں اور ملک کے عوام کو بھی اس کے لئے آمادہ کریں۔
یہ عید ایک ایسے موقع پر آئی ہے جب عالم اسلام ایک فیصلہ کن، لیکن دردناک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ فلسطین میں ہمارے بھائی جرأت و حوصلے اور شہادتوں کی لازوال تاریخ رقم کررہے ہیں۔ فلسطین کی صورت حال نے نام نہاد امن کے علمبردار ممالک کی منافقت، نسل پرستی اور ان کی وحشت کو ظاہر اور ان کی شیطنت کو بے نقاب کردیا ہے۔ فلسطینی بھائیوں کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نصرت فرمائے اور اپنے فضل و کرم سے انہیں اور ان کے شہر و ملک کو پھر سے آباد وشاداب کرے اور جو شہید ہو چکے ہیں،ان کی شہادتوں کو قبول فرمائے، مسجد اقصیٰ کی ظالموں کی دست درازیوں سے حفاظت کرے اور پوری دنیا میں امن و امان قائم فرمائے۔ ہمارے ملک ہندوستان کو امن و امان کا گہوارہ بنائے، یہاں عدل و انصاف کی فضا پروان چڑھے اور خیر امت ہونے کے ناطے ہمیں اپنی صحیح ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا کرے، آمین
بھارت ایکسپریس