Bharat Express

IICC Elections 2024: خدمت کے جذبے والے ہی آئی آئی سی سی کی قیادت کریں: ڈاکٹر پرویز حیات

سابق آئی پی ایس افسر ڈاکٹر پرویز حیات کا ماننا ہے کہ افضل امان اللہ تیز و طرار آئی اے ایس افسر رہے ہیں۔ بہار حکومت میں ہوم سیکریٹری کے طور پر، مرکزی حکومت میں کئی وزارتوں میں مختلف عہدوں پر رہ کر اور سعودی عرب میں قونصل جنرل کے طور پر انہوں نے کئی قابل ذکر کام کیے۔

دہلی کے مشہور انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر (آئی آئی سی سی) کا انتخاب 11 اگست کو ہونے والا ہے۔ اس حوالے سے سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ کئی امیدوارانتخابی میدان میں اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ ہر کوئی ووٹروں کو لبھانے میں مصروف ہے۔ صدر کے عہدے کے لیے سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید، مشہور بیوروکریٹ اور بھارت سرکار کے سابق سیکریٹری افضل امان اللہ، آصف حبیب، ابرار احمد، اور ڈاکٹر ماجد تلیکوٹی اپنے اپنے پینل کے ساتھ میدان میں ہیں۔ صدر – 1، نائب صدر – 1، بورڈ آف ٹرسٹی – 7، اور ایگزیکٹو ممبر – 4 سمیت کل تیرہ عہدوں کا انتخاب ہر پانچ سال میں ہوتا ہے۔ آئی آئی سی سی کے لائف ممبر اس کے ووٹر ہوتے ہیں۔ بھارت اور بیرون ملک میں رہنے والے چار ہزار سے زیادہ لائف ممبر ہیں۔ کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر اس بار 2054 ممبر ہی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ اس بار کا انتخاب کافی دلچسپ ہو گیا ہے۔ سراج قریشی پچھلے بیس سال سے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی عمر 75 سال سے زیادہ ہو چکی ہے اس لیے وہ اس بار صدر کے لیے انتخاب نہیں لڑ سکتے۔ آئی آئی سی سی کے قوانین کے مطابق صدر اور نائب صدر کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر 75 سال مقرر کی گئی ہے۔

دہلی کے مختلف علاقوں کے علاوہ ممبئی، حیدرآباد، بنگلور، چنئی، پٹنہ، لکھنؤ، علی گڑھ میں مختلف پینل کے امیدوار انتخابی جلسے کر کے ووٹروں کو لبھانے میں لگے ہیں۔ ابھی تک کے رجحانات سے معلوم ہو رہا ہے کہ ووٹر تبدیلی کے موڈ میں ہیں۔آئی آئی سی سی کے پرانے ممبر اور سابق آئی پی ایس افسر ڈاکٹر پرویز حیات اس بار کے انتخاب میں کافی سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق ووٹر اس بار پرانی ٹیم کو “ہو گیا بس” کہتے نظر آ رہے ہیں۔ دہلی میں منعقد ایک جلسے میں ڈاکٹر پرویز حیات نے کہا کہ اس بار ووٹر بہت ہی سمجھداری سے امیدواروں کو منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک کے رجحانات کے حساب سے دو پینل ریس میں ہیں: سلمان خورشید پینل اور ٹیم افضل امان اللہ۔ ڈاکٹر پرویز کے مطابق سلمان خورشید سپریم کورٹ کے بہت بڑے وکیل ہیں۔ ان کے پاس آئی آئی سی سی کو دینے کے لیے وقت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی آئی سی سی میں 2009 کے انتخاب میں انہیں ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس بار ان کے ساتھ دوسرا سب سے بڑا مائنس پوائنٹ یہ ہے کہ ان کی عمر 72 سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ایسے میں ووٹر مڈ ٹرم پول کے لیے ووٹ دینا نہیں چاہتے۔ سلمان خورشید ووٹر کو یہ بھی سمجھانے میں ناکام ہیں کہ مرکزی حکومت میں اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر، قانون کے وزیر اور وزیر  خارجہ جیسے اہم وزارتوں کے وزیر رہتے ہوئے انہوں نے ملک اور معاشرے کے لیے کیا کام کیا۔ ڈاکٹر پرویز کا کہنا ہے کہ جب اتنے اہم عہدوں پر رہ کر سلمان خورشید نے ملک اور معاشرے کے لیے کچھ ایسا نہیں کیا جو لوگوں کو یاد ہو تو پھر آئی آئی سی سی کا صدر بن کر وہ کون سا بھلا کر پائیں گے۔

سابق آئی پی ایس افسر ڈاکٹر پرویز حیات کا ماننا ہے کہ افضل امان اللہ تیز و طرار آئی اے ایس افسر رہے ہیں۔ بہار حکومت میں ہوم سیکریٹری کے طور پر، مرکزی حکومت میں کئی وزارتوں میں مختلف عہدوں پر رہ کر اور سعودی عرب میں قونصل جنرل کے طور پر انہوں نے کئی قابل ذکر کام کیے۔ بہار میں مذہبی مقامات کی گھیرا بندی کروا کر فرقہ وارانہ فساد کو ہمیشہ کے لیے ختم کرانے کے لیے عوام انہیں یاد کرتی ہے۔ سعودی عرب میں حج کے دوران ہر سال ہونے والی آگ لگنے کے واقعات پر ان کی کوششوں سے اب مستقل طور پر قابو پا لیا گیا ہے۔ اس طرح کے درجنوں بڑے کام جناب امان اللہ نے کیے ہیں جسے عوام یاد کرتی ہے۔ جناب افضل امان اللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، اہل، تجربہ کار اور انتہائی ایماندار انسان ہیں۔ اس سے بھی بڑی بات یہ کہ ان کے پاس آئی آئی سی سی کو دینے کے لیے پورا وقت ہے۔ آئی آئی سی سی، جو کہ سیاست کا اڈہ بن چکا ہے، اسے بہتر بنانے کے لیے فل ٹائم صدر اور اہل ٹیم کی ضرورت ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن سیدہ قدسیہ فاطمہ نے کہا کہ افضل امان اللہ صاحب کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج خواتین بغیر مرد رشتہ داروں کے حج کے سفر پر جا سکتی ہیں۔ جبکہ پہلے خواتین کو اپنے کسی مرد رشتہ دار کے ساتھ ہی حج پر جانے کی اجازت ہوتی تھی۔ محترمہ قدسیہ نے کہا کہ جناب امان اللہ کی سوچ ذات، برادری، علاقہ اور جنس سے بالاتر ہے۔ آئی آئی سی سی کو ایسے رہنما کی ضرورت ہے۔ اب یہ تو 12 اگست کو ہی پتہ چلے گا کہ ممبر کیا فیصلہ لیتے ہیں۔

بھارت ایکسپریس۔