دہلی ہائی کورٹ عام آدمی پارٹی کے دفتر کی زمین کی عارضی الاٹمنٹ کی عرضی پر اگلی سماعت 22 جولائی کو
Delhi High Court: دہلی ہائی کورٹ نے منگل کو طلاق کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے اہم تبصرے کئے ۔ اس معاملے میں شوہر اپنی بیوی سے یہ کہہ کر طلاق مانگ رہا تھا کہ وہ اسے اپنا گھر جمائی بنا کر رکھنا چاہتی ہے اور وہ اس کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے سے انکارکررہی ہے۔ ایسے میں عدالت نے کہا کہ ‘شوہر یا بیوی کا اپنے ساتھی کے ساتھ سیکس تعلق کرنے سے انکار کردینا ذہنی ظلم ہے’۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت نے مزید کہا کہ میاں بیوی کا جسمانی تعلقات سے انکار ذہنی ظلم ہے۔ لیکن اسے ظلم صرف اسی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے جب ایک ساتھی نے طویل عرصے تک جان بوجھ کر ایسا کیا ہو۔ اس معاملے میں ایسا نہیں ہے، اس لیے عدالت نے شوہر کے حق میں نچلی عدالت کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ۔جس میں اس نے دونوں کی طلاق کی منظوری دی تھی۔
معمولی جھگڑے کو ظلم نہیں کہا جا سکتا
عدالت نے کہا کہ یہ بہت حساس معاملات ہیں۔ عدالتوں کو ایسے مقدمات کو نمٹانے میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ شادی شدہ جوڑوں کے درمیان معمولی اختلاف اور اعتماد کی کمی کو ذہنی ظلم نہیں کہا جا سکتا۔ شوہر نے بیوی کے ذہنی ظلم کی بنیاد پر طلاق مانگی اور الزام لگایا کہ وہ اس کے ساتھ اپنے سسرال میں رہنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور وہ چاہتی ہے کہ شوہر اس کے ساتھ ‘گھر جمائی’ کے طور پر اپنے میکے میں رہے۔ دونوں کی شادی 1996 میں ہندو رسم و رواج کے مطابق ہوئی اور 1998 میں دونوں کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی۔
بیوی طلاق نہیں چاہتی تھی
بیوی کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس سنجیو سچدیوا کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ اگرچہ جنسی ملاپ سے انکار کو ذہنی ظلم کی ایک شکل سمجھا جا سکتا ہے، لیکن یہ تب ہی ہو جب یہ مسلسل، جان بوجھ کر اور طویل عرصے تک ہو۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بنچ نے کہا کہ عدالت کو ایسے حساس اور نازک معاملے سے نمٹنے میں “انتہائی احتیاط” برتنے کی ضرورت ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس طرح کے الزامات کو محض مبہم بیانات کی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب شادی کی رسم ادا کی گئی ہو۔ بنچ نے مشاہدہ کیا کہ شوہر اس پر ڈھائے جانے والے کسی بھی ذہنی ظلم کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے اور موجودہ معاملہ ‘ازدواجی بندھن میں صرف عام اختلاف کا معاملہ ہے۔’
بھارت ایکسپریس