تحریر: ہلیری ہوپیک
ہندوستان نے ۲۰۳۰ءتک اپنے برقی سپلائی گرڈ میں ۵۰۰ گیگا واٹ غیر روایتی بجلی شامل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے اور ۲۰۷۰ء تک کاربن کے اخراج کو صفر تک لے آنے کے لیے بھی پُر عزم ہے۔توانائی کی منتقلی کے اس عمل میں نجی شعبے کا کردار کلیدی نوعیت کا ہوگا۔ایسی ہی ایک کمپنی ’ سنی رے سولوشنس‘ ہے جو گھریلو، صنعتی اور تجارتی شعبوں کے استعمال کےلیے حسب ضرورت شمسی نظام کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔ کولکاتہ میں واقع امریکی قونصل خانے کے تعاون یافتہ ’گلوبل لِنکس انی شی ایٹو انٹر پرینرشپ پروگرام ‘ کی مدد سے اس کمپنی نے مغربی بنگال کے کئی شہروں تک اپنی خدمات کو وسعت دی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ، رِک اینڈ سوسن گوئنگس فاؤنڈیشن اور رولنس کالج کے کرمر گریجویٹ اسکول آف بزنس کا کفالت یافتہ پروگرام گلوبل لِنکس انی شی ایٹو خواتین اسکالرس کو سماجی کاروبار کے متعلق کاروباری تربیت اور عملی کاروباری مہارتیں فراہم کرتا ہے جس کے بدلے میں وہ اپنے آبائی ملک میں خاتون کاروباری پیشہ وروں کی رہنمائی کرتی ہیں۔
کولکاتہ میں واقع سَنی رے سولوشنس متعدد خدمات فراہم کرتی ہے جن میں سولر پلانٹس کے لیے منتخب کیے جانے والے مقامات کے دورے، ڈیزائن، حصول، تنصیب ، شمسی مصنوعات اور شمسی پلانٹوں کی تبدیلی اور رکھ رکھاؤ شامل ہیں۔اس کی بانی اور سی ای او سنگیتا سین بتاتی ہیں کہ اس نے ’سسٹم انٹیگریٹر‘ کے طور پر بھی اپنا دائرہ بڑھایا ہے اور اس کی سالانہ بکری کم و بیش پانچ ملین ڈالر ہے۔
سین چاہتی ہے کہ کمپنی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی بین الاقوامی کوششوں کا حصہ بنے۔ وہ کہتی ہیں کہ توانائی کی آزادی کے ذریعے برادریوں کو بااختیار بنانے کے کمپنی کے ویژن میں پسماندہ علاقوں میں پائیدار توانائی لانا، معاشی ترقی کو آگے بڑھانا اور زندگی کے معیار کو بہتر بنانا شامل ہے۔
کمپنی شمسی توانائی کے پلانٹوں کے فوائد سے متعلق بیداری مہم چلاتی ہے اور شمسی توانائی سے متعلق تربیتی کلاس کا انعقاد بھی کرتی ہے۔ سین کہتی ہیں ’’اسے ہم بہت سی خواتین اور نوجوان نسل کو آمدنی اور روزگار کے مواقع کے ساتھ جوڑ کر بااختیار بنانے کے ایک اہم محرک کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘‘
شمسی توانائی کو بروئے کار لانا
الیکٹریکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے والی سین نے ہندوستان میں بجلی کے شعبے میں ۱۴ سال کا عرصہ گزارا ہے جو روایتی ایندھنوں پر منحصر ہے۔ شمسی توانائی کے میدان میں ان کی منتقلی حکومت ہند کی بہت چھوٹی، چھوٹی اور متوسط درجے کی صنعتوں کی وزارت کے ذریعہ پیش کردہ کاروباری پیشہ وری کے ایک کورس کی بدولت ہوئی۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے کورس کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اپنے آپ کو ایک کاروباری شخصیت کے طور پر ڈھالا۔‘‘
سین کا کہنا ہے کہ ۲۰۔۲۰۱۹ میں کولکاتہ میں واقع امریکی قونصل خانہ کے دی گلوبل لنکس انی شی ایٹو سےان کے اسٹارٹ اپ کو انمول تعاون حاصل ہوا۔ یہ ایک ایساکاروباری پیشہ وری پروگرام ہے جو چھوٹے کاروبار کرنے والی خاتون مالکان کو بااختیار بناتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس پروگرام سے سَنی رے سولوشنسکو سوشل میڈیا پر اپنی کاروباری موجودگی کو بہتر بنانے، روابط قائم کرنے، صنعتی تجربہ حاصل کرنے اور مصنوعات کی پیشکش کو متنوع بنانے میں مدد ملی۔
سنی رےسو لو شنس کو اپنے کاروبار کو بڑھانے اور بھارت ریز شروع کرنے کے لیے ۲۱۔۲۰۲۰ میں دی گلوبل لنکس امپیکٹ انویسٹمنٹ فورم سے تعاون حاصل ہوا۔ سین کی زیر قیادت بھارت ریز کا بڑے پیمانے پر شمسی توانائی کو فروغ دینے کا ایک نیا کاروباری منصوبہ ہے جسے سَنی ریزسولوشنس کے جانشین کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سین نے ۲۰۲۳ میں امریکی محکمہ خارجہ کے اکیڈمی آف وومن انٹرپرینرس (اے ڈبلیو ای) پروگرام کے تحت ایریزونا اسٹیٹیونیورسٹی کے ذریعے چلائے جانے والے آن لائن تربیتی پروگرام ’ڈریم بلڈر‘ میں حصہ لیا۔
دی گلوبل لنکس انی شی ایٹو کے ساتھ شراکت داری میں چلایا جانے والا سرمایہ کاری کا منصوبہ ’ السیسار امپیکٹ‘ رہنمائی، نیٹ ورک تک رسائی اور قانونی اور مالیاتی مشورے فراہم کرتا ہے۔ سین کہتی ہیں ’’ادارہ بھارت ریزسو لو شنس کو چیلنجوں سے نمٹنے اور نقصانات سے بچانے میں مدد کرنے کے لیے علم کا خزانہ فراہم کرتا ہے۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں ’’ نیٹ ورکنگ ممکنہ گاہکوں، شراکت داروں اور سرمایہ کاروں کے لیے کاروباری ماحولیاتی نظام میں مرئیت اور معتبریت کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ دریں اثنا ان کے پیشہ ور افراد ہمارے ہدف شدہ ناظرین تک پہنچنے اور ہماری آن لائن اور آف لائن موجودگی کو منظم کرنے کے لیے مضبوط پیغام رسانی میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ شامل کرنے، معاہدے کے مسودے، تعمیل اور مالیاتی منصوبہ بندی کے سلسلے میں ان کے ذریعہ فراہم کی جانے والی قانونی اور مالی صلاح بھی اتنا ہی اہم ہے۔‘‘
حجم کو بڑھانا
بھارت ریز سو لو شنس نے حال ہی میں بعض بڑے اہداف کا اعلان کیا۔ سین کہتی ہیں ’’ہمارا ہدف آئندہ پانچ برسوں میں ۸۰ فی صد ترقی کا ہے۔ ہم مستقبل قریب میں ابتدائی عوامی پیشکش (آئی پی او) کے اپنے خواب کی تکمیل کی بھی توقع رکھتے ہیں۔‘‘ ایک نجی کمپنی آئی پی او کے ذریعےپہلی بار اپنے اسٹاک کے حصص عوام کو فروخت کرتی ہے اور ایک عوامی کمپنی بن جاتی ہے۔
سین زور دے کر کہتی ہیں ’’ہمارا مقصد صرف شمسی پینل نصب نہیں کرانا ہے بلکہ ہم توانائی کا جامع حل پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں جدید توانائی کے ذخیرہ کرنے کے نظام اور اسمارٹ گرڈ ٹیکنالوجیز کو مربوط کرنا بھی شامل ہے۔‘‘
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری ، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
بھارت ایکسپریس۔