بلقیس بانو معاملے میں مجرمین سے متعلق گجرات حکومت سے طرف سے داخل نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ نے مسترد کردی۔
بلقیس بانوکے قصورواروں کی رہائی کے معاملے میں ایک نیا موڑآگیا ہے۔ ایک قصوروارنے سال 2008 میں سزا ہونے کے بعد اورعدالتی حکم کے باوجود 34 ہزارروپئے کا جرمانہ نہیں ادا کیا، لیکن اسے گزشتہ سال وقت سے پہلے رہا کردیا گیا، لیکن اب سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی اورسماعت سے پہلے ہی ممبئی کی ایک عدالت میں جرمانہ جمع کردیا گیا۔
جمعرات کے روزسماعت کے دوران سپریم کورٹ میں جسٹس بی وی ناگرتنا نے پوچھا کہ کیا جرمانہ ادا نہ کرنا وقت سے قبل رہائی میں رکاوٹ بن سکتا ہے؟ کیونکہ جسٹس اجّل بھوئیاں نے کہا تھا کہ رہائی کے وقت تک جرمانہ نہیں ادا کیا گیا تھا۔
دراصل گجرات فساد کے دوران بلقیس بانوکے ساتھ اجتماعی آبروریزی اوران کی فیملی کے 14 افراد کے قتل کے گناہ میں عمرقید معاملے میں وقت سے پہلے رہائی پانے والے قصورواروں میں سے ایک نے سپریم کورٹ میں رہائی کے خلاف عرضی داخل کرکے مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا قانون سزا کے ذریعہ جرم کے سدھارپرزوردیتا ہے۔ اسے اوردیگرقصورواروں کو وقت پر رہائی اس حقوق کے تحت ملی ہے۔ اس لئے گجرات حکومت کے قدم میں کوئی غلطی یا خرابی نہیں ہے۔
مجرم نے جرمانہ بھرنے کی خواہش سے ایک عرضی بھی داخل کی تھی
وکیل سدھارتھ لوتھرا نے ایک سزا یافتہ قصوروارکی پیروی کرتے ہوئے کہا کہ وقت سے قبل رہائی کے لئے نقد جرمانہ ادا کرنے کی کوئی لازمی شرط نہیں نافذ ہوتی ہے۔ وہ سزا کاٹ چکا ہے۔ ہندوستانی قانون کے مطابق کوئی بھی عدالت کسی جرم کے لئے دو بارتاحیات قید کی سزا نہیں دے سکتی۔ ویسے بھی عمرقید کا التزام سزائے قید کو روکنے کے لئے ہی کیا گیا ہے۔
قبل ازوقت سزا ختم کرنے سے قصورثابت ہونے، یعنی کنوکشن کی بنیاد پر بھی کوئی اثرنہیں پڑتا۔ سدھارتھ لوتھرا نے کہا کہ قصوروارنے جرمانہ ادا کرنے کی خواہش سے متعلق ایک عرضی بھی داخل کی تھی۔ بلقیس بانومعاملے میں قصوروار ٹھہرائے گئے مجرمین میں سے ایک جسونت بھائی چتربھائی نائی نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے 15 سال پہلے عمرقید کے ساتھ 34 ہزار روپئے جرمانہ ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
بھارت ایکسپریس۔