عدالت نے جمعہ کو بہرائچ فرقہ وارانہ تشدد کیس میں گرفتار پانچ ملزمان کو 14 دن کے پولیس ریمانڈ پر بھیج دیاہے۔ جمعہ کو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر پولیس نے پانچوں ملزمان کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج پونم پاٹھک کی رہائش گاہ پر پیش کیا۔ اس دوران چاروں طرف سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ جس کے بعد عدالت نے ملزم کو پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا۔بتایا جا رہا ہے کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر گرفتار ملزمان محمد فہیم، محمد طالب عرف سبلو، محمد سرفراز، عبدالحمید اور محمد افضل کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج پونم پاٹھک کے گھر لایا گیا۔ پولیس مقابلے میں زخمی ہونے والے سرفراز اور طالب کو بھی عدالت میں پیش کرنے کے لیے اسپتال سے لے آئی۔ دونوں جمعرات کو پولیس انکاونٹر میں زخمی ہوئے تھے۔ ان کی ٹانگ میں گولی لگی جس کے بعد انہیں ضلع اسپتال میں داخل کرایا گیا۔
آپ کو بتا دیں کہ 13 اکتوبر کو بہرائچ ضلع کے مہاراج گنج علاقے میں درگا وسرجن کے دوران فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا، جس میں ایک نوجوان رام گوپال مشرا کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے دن پورے علاقے میں تشدد پھوٹ پڑا، جس میں آتش زنی کے واقعات دیکھنے میں آئے۔جمعرات کو پولیس نے انکاونٹر کے بعد اس معاملے میں پانچ ملزمان کو گرفتار کیا، جن میں سے دو ملزمان کی ٹانگوں میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ یہ تصادم ہندوستان-نیپال سرحد پر نانپارا تھانے کے علاقے میں سریو مین نہر کے قریب ہڈا بسہاری میں ہوا۔ پولیس کے مطابق ملزمان نیپال فرار ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جس کے بعد پانچوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کا کہنا ہے کہ تمام ملزمان کے خلاف نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت دیگر ٹھوس کارروائی کی جائے گی۔ دوسری جانب متوفی رام گوپال مشرا کی اہلیہ ڈولی مشرا کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔ ڈولی مشرا نے پولیس پر رشوت لینے کا الزام لگایا اور کہا کہ اسے انصاف نہیں دیا جا رہا ہے۔ صرف دکھاوے کے لیے دو ملزمان کا انکاونٹر ہوا، اس لیے ان کی ٹانگ میں گولی لگی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔