Bharat Express

الہ آباد ہائی کورٹ نے مدارس سے متعلق یوپی اور مرکزی حکومت سے مانگا جواب، مذہبی تعلیم دینے والے ایکٹ 2004 کو کیا گیا ہے چیلنج

انشومان سنگھ راٹھورکے ذریعہ داخل کی گئی عرضی میں یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ، 2004 اوربچوں کو مفت اورلازمی تعلیم کا حق (ترمیم) ایکٹ، 2012 کے التزامات کوبھی چیلنج دیا گیا ہے۔ عدالت 29 جنوری، 2024 سے اس معاملے کی ہرروزسماعت کررہی ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ (فائل فوٹو)

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے مرکزی وزارت تعلیم اورمرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے کہ کیا ریاست میں مذہبی تعلیم کی اجازت دینے والے آئینی اعتبارسے تعلیمی بورڈ ہوسکتے ہیں؟ جسٹس وویک چودھری اورجسٹس سبھاش ودیارتھی کی بینچ نے مدرسہ بورڈ اورمحکمہ اقلیتی امور، مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اوردیگرمتعلقہ محکموں کے ذریعہ مدرسہ کے انتظامیہ کے بارے میں کچھ موضوعات کواٹھانے والی ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے یہ سوال پوچھا۔ اس ضمن میں مدرسہ بورڈ اوریوپی کی حکومت نے اپنا جواب داخل کردیا ہے۔ یوپی حکومت اورمدرسہ بورڈ کی جانب سے داخل کئے گئے حلف نامہ کو ریکارڈ پرلے لیا گیا ہے۔ اس پورے معاملے پرمدارس کے منتظمین میں تشویش کی صورتحال ہے اورتنظیمیں فکرمند ہیں۔

بینچ نے کہا کہ اسے امید ہے کہ مرکزی وزارت تعلیم کے ساتھ ساتھ مرکزی وزارت برائے اقلیتی اموربھی تحریری جواب داخل کرے گا اور مرکزی حکومت کے وکیل سدھانشو چوہان 2 فروری کوعدالت میں اس سے متعلق جواب دیں گے۔ عرضی میں یوپی کے مذہبی تعلیمی قانون پرسوال اٹھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی سرکاری فنڈ سے مذہبی تعلیم، مدرسہ بورڈ ایکٹ اورنصاب تعلیم کے تمام پہلوؤں پرسوال اٹھایا گیا ہے۔ عدالت اس معاملے میں 29 جنوری سے مستقل سماعت کررہی ہے۔ اس سے قبل مدرسہ بورڈ کو ریاست کے محکمہ تعلیم کے بجائے اقلیتی محکمہ کے تحت چلانے کی ضرورت پربھی مرکزی حکومت اوریوپی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں کے منیجمنٹ یعنی انتظامیہ میں ممکنہ منمانی اورعدم شفافیت کے الزام کے موضوع پربھی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے  پوچھا تھا کہ کیا ایسے فیصلے مساوی مواقع اورسیکولراقدارکے اصولوں کے خلاف ہیں۔

واضح رہے کہ انشومان سنگھ راٹھورکے ذریعہ داخل کی گئی عرضی میں یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ، 2004 اوربچوں کو مفت اورلازمی تعلیم کا حق (ترمیم) ایکٹ، 2012 کے التزامات کوبھی چیلنج دیا گیا ہے۔ عدالت 29 جنوری، 2024 سے اس معاملے کی ہرروزسماعت کررہی ہے۔ اس میں مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اوریوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے ساتھ مختلف سوالات بھی اٹھائے ہیں۔

ٹیچرس ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری دیوان خان صاحب کا بڑا دعویٰ

روزنامہ انقلاب سے بات کرتے ہوئے ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اترپردیش کے جنرل سکریٹری دیوان صاحب زماں خان نے کہا کہ سماعت کے دوران جس طرح روز نئے نئے سوالات قائم ہو رہے ہیں، وہ تشویشناک ہیں۔ اب ایک نیا سوال قائم ہوا ہے کہ کیا مذہبی تعلیم کے لئے صوبائی حکومت کے ذریعہ بنایاگیا تعلیمی بورڈ آئینی ہوسکتا ہے جبکہ عدالت نے مدرسہ بورڈ کا نصاب تعلیم اور کتابیں منگوائی ہیں، جنہیں دیکھنے اور سماعت مکمل ہونے کے بعد یہ طے ہونا ہے کہ مدرسے مذہبی تعلیم دیتے ہیں یا عصری تعلیم کے ساتھ قدیم زبانوں کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا ہے کہ  مدرسہ بورڈ 1916 میں ایجوکیشن کوڈ کے تحت قائم ہوا اور اسی کوڈ کے تحت مدرسوں اور سنسکرت پاٹھ شالاؤں میں قدیم زبانیں عربی، فارسی اور سنسکرت کی  تعلیم ہوتی ہے۔ ان میں عصری تقاضوں کے تحت انگریزی، ہندی، حساب، سائنس، سماجی علوم، کمپیوٹر جیسے عرصری علوم بھی نصاب میں شامل ہیں۔ انقلاب کے مطابق، دیوان صاحب زماں خان کا کہنا ہے کہ ان تمام باتوں کو ایسوسی ایشن کے وکلاء ثبوتوں کے ساتھ عدالت کے سامنے رکھیں گے۔

یوگی حکومت مسلسل کرا رہی ہے مدارس کی جانچ

قابل ذکرہے کہ یوپی کی موجودہ یوگی حکومت سال 2022 سے ہی اسلامی تعلیمی اداروں کا سروے کرا رہی ہے اورمدارس کوبیرون ممالک سے ملنے والی رقم کی جانچ کے لئے ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل بھی کرچکی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ پہلے ہی مدرسہ بورڈ کے طریقہ کاراورسسٹم کی تشویش سے متعلق ضروری سوالوں کے معاملے میں محمد جاوید بنام یوپی ریاست اوردیگرکوبینچ کے سامنے بھیجا ہے۔ اس طرح کے سوال بڑی تعداد میں طلبا اوران کی تعلیم کے معیارکومتاثرکرتے ہیں۔ خاص طورپرجب اسے آئین کے آرٹیکل 21 اے کے ساتھ پڑھا جائے۔ عدالت اس معاملے میں متعلقہ فریق مدرسہ بورڈ، مرکزی اوریوپی حکومت سے تین دنوں میں جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت اس معاملے میں آج جمعرات کے روزبھی سماعت کررہی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

 

Also Read