مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام پینتیسویں آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس بعنوان ”احترام انسانیت اور مذاہب عالم“مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی دعاؤں پرکل شب دس بجے بحسن و خوبی ختتام پذیرہوگئی، جس میں مسجد نبوی کے امام سماحۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن العبیجان حفظہ اللہ نے بطور خاص شرکت کی، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھائی اور انسانوں کے امڈتے ہوئے سیلاب سے ایمان افروز خطاب کیا، امن و اخوت کی بات کی اور اسلام کا پیغام انسانیت سنایا۔اس پروگرام میں ملک و بیرون ملک سے سیکڑوں علمائے کرام، عمائدین ملت اور متعدد دھرم گرو نے شرکت کی۔
کانفرنس کے شانہ بشانہ دو روزہ قومی سیمینار کا بھی انعقاد عمل میں آیا جس میں مقالہ نگاروں نے مرکزی موضوع کے تحت مختلف ذیلی موضوعات پر علمی اور تحقیقی مقالات پیش کئے اور بتایا کہ کن خطوط پر چل کر احترام انسانیت کا کاز مکمل ہوسکتا ہے۔اختتامی اجلاس میں کانفرنس کے موقع مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند سے شائع ہونے والی متعدد اہم علمی،تحقیقی اور دعوتی کتابوں مثلاً مجموعہئ مقالات، دبستان نذیریہ جلد سوم، تاریخ اہل حدیث دسویں جلد، تحریک ختم نبوت چھبیسویں جلد، مرکزی جمعیت اہل حدیث سے صادر ہونے والے جرائد ورسائل مثلاپندرہ روزہ جریدہ ترجمان اردو،ماہنامہ اصلاح سماج ہندی اور ماہنامہ دی سمپل ٹروتھ انگریزی کے خصوصی نمبرات وغیرہ کا اجراء عمل میں آیا۔
اسی طرح مختلف اہم شخصیات کو ان کی گراں قدر دینی، علمی، تعلیمی، تربیتی، دعوتی، اصلاحی، سماجی، رفاہی اور قومی و ملی خدمات کے اعتراف میں اہل حدیث ایوارڈ کا اعلان کیا گیااور کل ملک و ملت سے متعلق متعدد تجاویزپیش ہوئیں اور قراردادمنظور ہوئیں۔اخیر میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے رقت آمیز دعا کی جس میں دین پر استقامت،عقیدہ توحید اور کتاب وسنت پر عمل، احترام انسانیت آپسی بھائی چارہ، قومی یکجہتی، وطن عزیز کی تعمیر و ترقی، امن و شانتی وغیرہ شامل تھی۔یہ سب جانکاری مرکزی جمعیت اہل حدیث سے جاری اخباری بیان میں دی گئی۔
پریس ریلیز کے مطابق جن امور سے متعلق قرارداد کی تجاویز پاس ہوئیں ان میں عقیدہ توحید کی اہمیت و ضرورت اور اس کی نشرواشاعت، ناموس رسالت کا تحفظ، تمام مذاہب کے دھرم گرؤوں اور مذہبی پیشواؤں کا احترام، دوسرے دین دھرم کی توہین کرنے والے کی مذمت، اعتدال و وسطیت کے راستہ پرگامزن ہونے، غلو سے بچنے،صبرو تحمل برتنے اور تشدد واشتعال انگیزی سے اجتناب کرنے اورمنہج منہج کا کھیل نہ کھیلنے کی تلقین، حقوق انسانی کا تحفظ،خواتین کا استحصال، جہیز، وراثت سے محرومی، قتل جنین و دیگر برائیوں پر اظہار تشویش،اعلیٰ دینی و عصری تعلیمی و تربیتی اداروں کے قیام پر زور،مساجد، مقابر اور مدارس وغیرہ کے سلسلے میں حکومت و عوام کو عدل و انصاف کے تقاضے کو پیش نظر رکھنے کی تجویز، مدارس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا استقبال۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لئے عالمی برادری سے اپیل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
قرار داد میں اس بات پربطور خاص زور دیا گیا کہ انسان اصلاً مکرم و معزز ہے،اس کا ہرفرد بشر کو پاس و لحاظ رکھنا چاہئے اور ہر اس قول و عمل سے احتراز کرنا چاہئے جس سے انسانی کرامت متاثر ہوتی ہے۔مذاہب کے اندر جواقدار و تعلیمات مشترک و مسلم ہیں ان کی بجاآوری کریں، پیام انسانیت کو عام کریں، اخوت و بھائی چارے کی فضا قائم کریں، مکالمہ کے کلچر کو فروغ دیں کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے الفت و محبت کا فروغ اور پرامن تعایش باہمی ممکن ہے۔
بھارت ایکسپریس۔