وزیر اعظم مودی۔ فائل فوٹو
انربن سرما
وزیراعظم مودی فی الوقت امریکہ کے دورے پر ہیں، ان کے ایجنڈے میں سب سے پہلے انفرادیت، بین الاقوامیت، اورکثیرالجہتی کی نشاۃ ثانیہ اورتبدیلی کی اس قدرکو جسے کوئی شخص دنیا میں دیکھنا چاہتا ہے، کو فروغ دینے کی ہوگی۔
وزیراعظم نریندرمودی 20 جون کو ریاست ہائے متحدہ (امریکہ)کے تاریخی سرکاری دورے پر نیویارک پہنچے۔ 2014 میں وزیراعظم بننے کے بعد ان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس تعلق سے وہائٹ ہاؤس کےایک سابقہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’یہ دورہ امریکہ اورہندوستان کے درمیان گہری اورقریبی شراکت داری اورخاندان ودوستی کے اس گرم جوش بندھن کو، جوامریکیوں اور ہندوستانیوں کوآپس میں جوڑتا ہے، کوفروغ دے گا۔ درحقیقت، یہ دورہ دنیا کی قدیم ترین اورسب سے بڑی جمہوریتوں کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے۔‘‘ اہم بات یہ ہے کہ یہ دورہ وزیراعظم مودی کو ہندوستان کو دنیا تک لے جانے، گہرے محسوس کردہ ذاتی اعتقاد کے نظام کو بین الاقوامی بنانے اورعالمی سطح پر ہندوستانی قیادت کا مظاہرہ کرنے کے ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
امریکہ میں وزیر اعظم کی پہلی مصروفیات میں سے ایک یعنی اقوام متحدہ (یو این) کے ہیڈکوارٹر میں بین الاقوامی یوم یوگ منانے کی قیادت، براہ راست ان تین اصولوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یوگ دنیا کے لیے ایک نمونہ کے طورپر”ایک بھارت، سریشٹھ بھارت” کے جذبے کو پیش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ”اندرونی نقطہ نظر کو وسعت دیتا ہے” اور”ہمارے تضادات، رکاوٹوں اور مزاحمتوں کو ختم کرنے میں مدد کرتا ہے”۔ ہندوستان نے ہمیشہ ایسی روایات کو پروان چڑھایا ہے جو دنیا کے لوگوں کو آپس میں متحد کرتی ہیں، اپناتی ہیں اورگلے لگاتی ہیں‘‘ اوریوگا بذات خود ’وسو دھیوکٹم بکم‘کے خیال کی توسیع ہے۔
سال 2023 کو میلٹس (موٹے اناج) کے بین الاقوامی سال کے طورپرمنانے کے لئے وزیراعظم کاسابق اورکامیاب اقدام اوران کی لائف (ایل آئی ایف ای)نامی پیش قدمی کا آغازبھی انہی ضروریات کے تحت کیا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں، ہندوستانی طرزعمل یا اخلاقیات کو ذاتی دائرے سے آفاقی دائرے کی طرف بڑھا دیا گیا ہے اوراب اسے عالمی سطح پربہترین عمل کے طورپرسراہا گیا ہے۔ ملیٹ میں زبردست غذائیت ہے اور ملکی و بین الاقوامی مانگ کو فروغ دینے کے اقدامات سے پائیدارپیداواراور کھپت کو فروغ ملے گا۔ اسی طرح، ماحول دوست طرز زندگی کے لیے جو تبدیلیاں ہم فرد کے طور پر کرتے ہیں، وہ ایک صاف ستھرا اور سرسبز و شاداب سیارہ بنانے میں مدد کریں گی۔
اصولوں کے اس وسیع فریم ورک نے جی 20 کی ہندوستان کی صدارت کی صورت کا تعین اور گلوبل ساؤتھ کی مضبوط آواز کے طور پر ملک کے ابھار کی تشکیل کی ہے۔ اس نے بنیادی سماجی معاہدوں کے ساتھ دوبارہ منسلک ہونے اور ایک نئی انفرادیت، ایک نئی بین الاقوامیت، اور ایک نئی کثیرالجہتی کی وکالت کرنے کی وزیر اعظم کی کوششوں کی بنیاد کے طور پر بھی کام کیا ہے۔
ڈیجیٹل بااختیاریت ایک نئی انفرادیت کے عروج کا بنیادی میدان ہوگا، لہذا ڈیجیٹل پبلک انفرااسٹرکچر (ڈی پی آئی) کا فروغ ہندوستان کی جی 20 کی صدارت کی بنیادی ترجیح رہی ہے۔ ہندوستان تین بنیادی ڈی پی آئیز یعنی ایک منفرد شناختی نظام،ریئل ٹائم فاسٹ پیمنٹ سسٹم اور رازداری سے سمجھوتہ کیے بغیر ذاتی ڈیٹا کا اشتراک کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ اجتماعی طور پر ان تینوں لیئرز نے عوامی خدمات کی فراہمی اور شہریوں کو بااختیار بنانے کا کام کیا ہے اور ایک بے مثال پیمانے پر جدت طرازی کا آغاز کیا ہے۔ آج، 99.9 فیصد سے زیادہ ہندوستانی بالغ افراد عوامی خدمات حاصل کرنے کے لیے اپنے آدھار آئی ڈی کا استعمال کرتے ہیں۔ ہندوستانی عوام یونیفائیڈ پیمنٹس انٹرفیس کے ذریعے روزانہ 30 ملین لین دین کرتے ہیں، اور یہ ملک دنیا کا سب سے بڑا ٹیکنالوجی پر مبنی مالی شمولیت کا پروگرام چلاتا ہے۔ ہندوستان اپنی ڈی پی آئی کی مہارت کو دنیا کے ساتھ بانٹ رہا ہے اور اس نے گلوبل نارتھ کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔ اپنے دورے کے پہلے دن وزیراعظم مودی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، امریکی ماہر اقتصادیات پال رومر نے کہا کہ ”جہاں تک آدھار اور ڈیجی لاکر جیسے تکنیکی حل ہیں، ہندوستان دنیا کو دکھا سکتا ہے کہ اسے کیسے درست کرنا ہے”۔ کواڈ لیڈرز اور ای یو – انڈیا ٹریڈ اینڈ ٹیکنالوجی کونسل نے بھی ڈی پی آئی کی تبدیلی لانے والی قوت پر زور دیا ہے۔ انھوں نے ہندوستان کے لیے 2070 تک نیٹ زیرو تک پہنچنے کا بڑا ہدف مقرر کیا ہے، لیکن وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ایک نئی بین الاقوامیت صرف موسمیاتی تعاون کی نئے ترتیب سے جنم لے سکتی ہے۔
پی ایم مودی لوگوں اور سیارے (پیپل اینڈ پلینیٹ)کے درمیان ایک نیا ربط پیدا کرنے کے خواہشمند ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کے لیے 2070 تک نیٹ زیرو تک پہنچنے کا بڑا ہدف مقرر کیا ہے، لیکن وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ایک نئی بین الاقوامیت صرف موسمیاتی تعاون کی نئے ترتیب سے جنم لے سکتی ہے۔اسی تناظر میں، ہندوستان اور فرانس نے 2015 میں بین الاقوامی شمسی اتحاد(آئی ایس اے)کی مشترکہ بنیاد رکھی، تاکہ ممالک مشترکہ طور پر سستی شمسی توانائی پر مبنی کلین انرجی سالیوشنز کو تیار اور تعینات کرسکیں۔ آج، آئی ایس اے کے 114 ممالک رکن ہیں اور اس کے ‘ایک سورج، ایک دنیا، ایک گرڈ’پروگرام، جسے پی ایم مودی نے شروع کیا تھا، کو مختلف علاقائی گرڈ کو ایک مشترکہ گرڈ کے ذریعے جوڑنے کی ایک بصیرت مندانہ کوشش تصور کیا جاتا ہے، جو قابل تجدید توانائی کی طاقت کے شعبے میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ موسمیاتی کارروائی کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے، 2019 میں، وزیر اعظم نے ملٹی اسٹیک ہولڈر کولیشن فار ڈیزاسٹر ریسیلینٹ انفراسٹرکچر(سی ڈی آر آئی) قائم کیا تاکہ آب و ہوا اور آفات کے خطرات کے لیے انفرااسٹرکچر کی لچک کو مضبوط کیا جاسکے۔ دیگر ممالک میں، امریکہ نے سی ڈی آر آئی کے قیام کے لیے ہندوستان کی باضابطہ تعریف کی ہے، اور یو ایس ایڈ نے اس کے کام کی حمایت کرنے کے لیے فنڈز اور معلومات فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔
بالآخر، ہندوستان کی آوازایک نئی اوراصلاح شدہ کثیرالجہتی کے لئے سب سے مضبوط پکارثابت ہوئی ہے۔ فروری میں، پی ایم مودی نےجی 20وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے سربراہوں پرزوردیا کہ وہ کثیرالجہتی ترقیاتی بینکوں کی اصلاح اوربحالی کے لئے فوری اقدامات کریں۔ اپریل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) سے خطاب کرتے ہوئے، ہندوستان کے مستقل نمائندے نے اقوام متحدہ کے چارٹرکو’’تشدد پسندانہ‘‘ قراردیا اورویٹو پاورکے ساتھ یواین ایس سی کے پانچ مستقل ممبران کے موجودہ نظام پرتنقید کی اوردلیل دی کہ پانچ ممالک کو’دوسرے سے زیادہ مساوی (مور ایکول دَین اَدرس)’ نہیں بنایا جا سکتا۔ دونوں اقدامات ہندوستانی موقف کو واضح کرتی ہیں کہ اقوام متحدہ اور بریٹن ووڈس جیسے اداروں میں بنیادی تبدیلی اب انتہائی ضروری ہے۔
اس مدت کے دوران ہندوستان-امریکہ کے تعلقات بلا مبالغہ مستحکم اور مضبوط ہوئے ہیں، جیسا کہ انتہائی اہم اورابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سے متعلق دو طرفہ اقدامات سے اشارہ ملتا ہے۔ یہ ایک اہم مشہور دفاعی معاہدہ ہے اور کواڈ سے ہم آہنگ نقطہ نظر ہے۔
گزشتہ نو سال شدید جغرافیائی سیاسی اور جغرافیائی اقتصادی تبدیلیوں کا دور رہا ہے، جس میں عالمی وبا، علاقائی مداخلتوں اور مالیاتی کساد بازاری کی وجہ سے اضافہ ہوگیا ہے۔ اس مدت کے دوران ہندوستان-امریکہ کے تعلقات مستحکم طور پر مضبوط ہوئے ہیں، جیسا کہ انتہائی اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سے متعلق دو طرفہ اقدام سے اشارہ ملتا ہے۔ یہ ایک اہم مشہور دفاعی معاہدہ اور کواڈ سے ہم آہنگ نقطہ نظر ہے۔ لیکن اب جب کہ وزیر اعظم مودی اقوام متحدہ کا دورہ کررہے ہیں اور صدر بائیڈن سے ملاقات کر رہے ہیں تو ان کے ایجنڈے میں سب سے پہلے انفرادیت، بین الاقوامیت، اور کثیرالجہتی کی نشاۃ ثانیہ اور تبدیلی کی اس قدر کو جسے کوئی شخص دنیا میں دیکھنا چاہتا ہے ، کو فروغ دینے کی ہوگی ۔
(انربن سرما، او آرایف میں سینئرفیلو ہیں۔ مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، وہ مضمون نگارکے ہیں۔)
بھارت ایکسپریس۔