Bharat Express

9 Years of Modi Govt–Complete Revolution in Power Sector: مودی حکومت کے 9 سال– بجلی کے شعبے میں مکمل انقلاب

حکومت نے قابل تجدید توانائی پر توجہ مرکوز کرکے ماحولیات کے تئیں اپنی وابستگی کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ 2015 میں، وزیراعظم مودی نے 2022 تک 175 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو نصب کرنے کے ہدف کا اعلان کیا۔

مرکزی وزیر توانائی, آر کے سنگھ

“This article/write-up has been edited and sent by the Press Information Bureau(PIB), Government of India and reprinted on its request.”

یہ مضمون پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی)، حکومتِ ہند کے ذریعہ ایڈیٹیڈ/ترمیم شدہ اورارسال کردہ ہے، جوان کی گزارش پرشائع کی گئی ہے۔

تحریر: آر کے سنگھ، مرکزی وزیر توانائی

نئی دہلی: گزشتہ 9 برسوں کے دوران مودی سرکارنے بجلی کے شعبے میں ایک غیرمعمولی انقلاب برپا کیا ہے۔ مسلسل لوڈ شیڈنگ اوربجلی کے خسارے کے دن اب تاریخ بن چکے ہیں۔ 2015-2014سے پہلے، بجلی کی فراہمی میں خسارہ حیرت انگیزطورپر4.5 فیصد تھا۔ تاہم، جب سے حکومت نے 2014 میں اقتدارسنبھالا، 185 گیگا واٹ پیداواری صلاحیت کا ایک متاثر کن اضافہ کیا گیا ہے، جس سے ملک کو بجلی کے خسارے سے بجلی کی سرپلس کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ آج کل نصب شدہ صلاحیت17 جی ڈبلیو 417 ہے، جو 222جی ڈبلیو  کی بلند ترین طلب سے تقریباً دوگنی ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت اب پڑوسی ممالک کو بجلی برآمد کر رہا ہے۔

ٹرانسمیشن کے شعبے میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ 2013 سے، تقریباً دو لاکھ سرکٹ کلومیٹر پرمحیط ٹرانسمیشن لائنوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے، جو پورے ملک کو ایک ہی فریکوئنسی پر کام کرنے والے ایک مربوط گرڈ سے جوڑتا ہے۔ یہ ٹرانسمیشن لائنیں، جن میں  کے وی 800 ایچ وی ڈی سی جیسی جدید ترین ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جاتا ہے، کچھ انتہائی دشوار گزار اور پرخطر علاقوں سے ہو کر گزرتی ہے ،  جن میں بشمول سرینگر- لیہہ لائن بھی شامل ہے جو سطح سمندر سے 15000/16000 فٹ کی بلندی پر ہے۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں 112 گیگاواٹ بجلی کی منتقلی کی صلاحیت، جو کہ 2014 میں صرف 36 گیگاواٹ تھی، نے ہندوستان کو ایک متحد پاور مارکیٹ میں تبدیل کر دیا ہے، جس سے تقسیم کار کمپنیوں کو ملک بھر میں کسی بھی بجلی پیدا کرنے والی کمپنی سے بلند ترین مسابقتی شرح پر  زیادہ سے زیادہ بجلی خریدنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں صارفین کے لیے بجلی کے نرخ کم ہوئے ہیں۔

بجلی تک رسائی حکومت کی کوششوں میں  توجہ کا ایک بڑا مرکزرہا ہے۔ ہماری حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے، آزادی کے 67 سال بعد بھی 18000 سے زیادہ گاؤں اور متعدد بستیاں بجلی سے محروم تھیں۔ اگست 2015 میں وزیراعظم مودی نے 1000 دنوں کے اندر ہر گاؤں کو بجلی فراہم کرنے کے ہدف کا اعلان کیا۔ پہاڑی علاقوں اور صحرائی علاقوں میں لاجسٹک چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود حکومت نے یہ ہدف صرف 987 دنوں میں مقررہ نشانے سے 13 دن پہلےحاصل کر لیا۔ اس کامیابی کو بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے 2018 میں توانائی کے شعبے میں سب سے اہم خبر کے طور پر تسلیم کیا۔

اس کامیابی کی بنیاد پر، حکومت نے پھرہرگھرکوبجلی سے جوڑنے کا ارادہ کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ہدف 18 مہینوں کے اندر حاصل کیا گیا، جس میں کل 2.86 کروڑ گھروں کو جوڑا گیا ہے۔ بجلی تک رسائی کی یہ تیز رفتار توسیع توانائی کے شعبے کی تاریخ میں بے مثال ہے، جسے بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی طرف سے تسلیم کیا گیا ہے۔ مودی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ  کسی بھی فرد کو اس سہولت سے محروم نہ چھوڑا جائے ۔

تقسیم کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے، حکومت نے تمام ریاستوں میں دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی منظور شدہ لاگت کے ساتھ جامع اسکیمیں نافذ کیں۔ اس میں نئے سب اسٹیشنوں کا اضافہ،  پہلے سے کام کررہے اسٹیشنوں کی  بہترسازی ، ٹرانسفارمرز کی تنصیب، اورہزاروں کلومیٹرطویل ایل ٹی اورایچ ٹی لائنوں کی تعمیراورتبدیلی شامل ہے۔ ان کوششوں سے دیہی علاقوں میں بجلی کی دستیابی میں نمایاں بہتری آئی ہے، جس سے اوسط دستیابی 2015 میں 12 گھنٹے سے بڑھ کر آج 22.5 گھنٹے ہو گئی ہے، جب کہ شہری علاقے اب اوسطاً 23.5 گھنٹے بجلی کی فراہمی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈی جی سیٹوں کا بازار اب بند ہوگیا!

حکومت نے قابل تجدید توانائی پر توجہ مرکوز کرکے ماحولیات کے تئیں اپنی وابستگی کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ 2015 میں، وزیراعظم مودی نے 2022 تک 175 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو نصب کرنے کے ہدف کا اعلان کیا۔ فی الحال، ہندوستان نے نفاذ کے مختلف مراحل کے تحت اضافی 84 گیگاواٹ 172 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت قائم کی ہے۔ اس ترقی نے ہندوستان کو قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کے لحاظ سے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے ملک کے طور پر شناخت کروایا ہے، جس نے دنیا بھر میں بڑے فنڈز سے سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔ مزید برآں، ہندوستان نے مقررہ وقت سے نو سال پہلے 2030 تک قابل تجدید ذرائع سے 40 فیصد بجلی پیدا کرنے کا اپنا  معینہ ہدف حاصل کرلیا ہے۔ فی الحال، غیر حجری ایندھن کے ذرائع نصب شدہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا 43 فیصد ہیں، جو کل 180 گیگا واٹ ہے۔

حکومت کاربن اخراج کی شدت کو کم کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ 2005 کی سطح کے مقابلے میں اخراج کی شدت کو 33فیصد-35فیصد تک کم کرنے کے ہدف کو حاصل کرکے، ہندوستان نے خود کو واحد جی-20  ملک اور بڑی معیشت کے طور پر منوا لیا ہے جس کا حصہ عالمی درجہ حرارت کے اضافے میں 2 ڈگری سے بھی کم مانا جارہا ہے۔ اجالا (ایل ای ڈی ڈسٹری بیوشن)، پرفارم، اچیو اینڈ ٹریڈ (پی اے ٹی)،  استعمالات کے لئے  اسٹار ریٹنگ پروگرام اور توانائی کی بچت سرٹیفکیٹس جیسے مختلف پروگراموں نے سی او2  کے اخراج میں سالانہ 159 ملین ٹن کی کمی میں تعاون کیا ہے۔  تعمیراتی قوانین  جن کا مقصد تجارتی اور رہائشی عمارتوں میں توانائی کا تحفظ ہے ، اس سمت میں ایک اور بڑا قدم ہے۔ اب ہم نے 2005 کی سطح کے مقابلے میں 2030 تک اپنے  سی او2  کے اخراج کو 1 بلین ٹن اور اپنی معیشت کی توانائی کی شدت کو 45 فیصد تک کم کرنے کا عہد کیا ہے۔ ہم یہ اہداف بھی 2030 سے پہلے حاصل کر لیں گے۔

پورے پاورسیکٹر میں جامع اصلاحات نافذ کی گئی ہیں۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں ( ڈسکامز ) میں کارکردگی اور مالیاتی نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے کہ  اے ٹی اینڈ سی کے نقصانات کو کم کرنے کے عمل کے ساتھ مالیہ کی فراہمی  کو جوڑنا، انرجی اکاؤنٹنگ اور آڈٹ کو نافذ کرنا، اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے سبسڈی کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانا۔ نتیجتاً، تقسیم کار کمپنیوں( ڈسکامز) کے اے ٹی اینڈ سی نقصانات مالی سال 21 میں 22 فیصد سے کم ہو کر مالی سال 22 میں 16.44 فیصد رہ گئے ہیں۔ تقسیم کار کمپنیوں(ڈسکامز) کےذمہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے پرانے واجبات کم ہو کر تقریباً نصف یعنی1.4 کرور روپے سے گھٹ کر80 ہزار کروڑ روپے رہ گئے ہیں۔ تقسیم کار کمپنیوں( ڈسکامز) کے ذریعہ تیار کردہ بجلی کی موجودہ ادائیگیاں پوری طرح بروقت ہو رہی ہیں۔

سب سے زیادہ مقدارمیں بجلی پیدا کرنے والے اسٹیشنوں کے لیے لچک داری کا راستہ ہموار کرکے، ہم نے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت کو کم کر دیا ہے۔ ریئل ٹائم مارکیٹ کے تعارف کے ذریعے اور قابل تجدید توانائی کے لیے الگ الگ اگلی مدت اور اگلے دن  کی مارکیٹ قائم کرکے بجلی کی مارکیٹ میں بھی توسیع ہوئی ہے۔

توانائی کی منتقلی کی کوشش میں، ہم نے تھرمل پاور پلانٹس میں قابل تجدید توانائی کے ساتھ تھرمل انرجی اور بائیو ماس کو ساتھ ساتھ جلانے  کی اجازت دی ہے۔ 100 کلو واٹ یا اس سے زیادہ کے منسلک لوڈ کے ساتھ کوئی بھی صارف اب ایسے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس سے قابل تجدید توانائی حاصل کر سکتا ہے۔ حکومت پی ایل آئی اور بیٹری انرجی سٹوریج سسٹم کے ذریعےویبیلٹی گیپ فنڈنگ کے ساتھ سول پی وی سیل مینوفیکچرنگ کی حمایت کر رہی ہے۔

 پن بجلی کا شعبہ جوکہ خستہ حال تھا، تقریباً 15 گیگاواٹ زیرتعمیر کے ساتھ دوبارہ متحرک ہوگیا ہے۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے چارجنگ انفراسٹرکچر کے قیام کے سلسلے میں قواعد و ضوابط کوآسان بنایا گیا ہے اور گھریلو کنکشن سے چارجنگ کو ممکن بنایا گیا ہے۔ تنازعات کے حل کا طریقہ کار اب  ایسا اختیار کیا گیا ہے جو ایک ماہ کے اندر تنازع کا فیصلہ کرتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ مودی حکومت نے پاور سیکٹر میں ایک قابل ذکر تبدیلی کی قیادت کی ہے۔ پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، ٹرانسمیشن نیٹ ورکس میں اضافہ کرنے، بجلی تک رسائی بڑھانے، قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے اور جامع اصلاحات کو نافذ کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، ہندوستان نے بے مثال سنگ میل طے کئے ہیں۔ ماحولیات، توانائی کی کارکردگی اور پائیدار ترقی کے تئیں حکومت کے پختہ عزم  نے ہندوستان کو توانائی کی منتقلی میں ایک عالمی رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے اہداف اور کاربن کے اخراج میں مزید کمی کے ساتھ، مودی حکومت ہندوستان کے پاور سیکٹر کے مستقبل کو تقویت دینے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read