کانجھا والا حادثہ خواتین کی حفاظت پر سنگین سوال
Kanjhawala Car Dragging Case, Delhi:دہلی نے ایک بار پھر ملک کو مایوس کیا ہے۔ سال بدل گئے لیکن دہلی میں جرائم کی نوعیت نہیں بدلی۔ صرف 20 سال کی ایک نوجوان لڑکی ملک کے دارالحکومت میں پولیس کی سنگین لاپرواہی اور قانون کی پاسداری کرنے والے کچھ بدمعاشوں کی گھناؤنی ذہنیت کا شکار ہوگئی جو نئے سال کے ابتدائی اوقات میں قلعہ نما سیکیورٹی کا دعویٰ کرتی ہے۔ پہلے اس بچی کی دردناک موت اور پھر اس گھناؤنے جرم پر پردہ ڈالنے کی بے شرمانہ کوشش میں اس کے کردار کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ترقی کے جتنے دعوے کر لیں ہم بحیثیت معاشرہ نہ تو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے تیار ہیں۔ پسماندہ ذہنیت سے نجات کے لیے خودساختہ پولیس سے لے کر میڈیا کے عدالت بننے تک، حکومتی مشینری اپنے مقدمے، سیاسی بیان بازی، متاثرین کو خاموش رکھنے کا کچھ معاوضہ اور پھر کبھی نہ ٹوٹنے والی ابدی عوامی خاموشی کے دباؤ میں رسومات ادا کرتی نظر آتی ہے۔ اس طرح کے ہر واقعے کا مقصد ہے۔
ایک معاشرے کے طور پر، ہم ابھی بھی انہی سوالات سے بھاگ رہے ہیں، جو دس سال پہلے نربھیا کے واقعے نے ہمارے سامنے کھڑے کیے تھے، جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کیا تب سے کچھ بدلا ہے؟ آج بھی محفوظ سمجھی جانے والی دہلی کی سڑکوں پر وحشی آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس وقت بے بس نظر آنے والی دہلی پولس اب بھی بار بار تحقیقات کو موڑنے پر مجبور ہے۔ آج بھی ہمارا سیکورٹی سسٹم خواتین کے تحفظ کے حوالے سے اپنے دعوے پر پورا نہیں اتر رہا۔ خواتین کے بارے میں مردوں کی ذہنیت نہیں بدل رہی۔ 22ویں صدی میں آنے کے بعد بھی ہمارا معاشرہ پچھلی صدیوں سے کہاں مختلف ہے؟ یاد ہے جب نربھیا کے ساتھ ظلم ہوا تھا، تب بھی کیا ہم ان سوالوں سے دو چار نہیں ہوئے تھے؟ ہمارے پاس ان سوالوں کے جواب نہ تو تب تھے اور نہ ہی اب ہمارے پاس ہیں۔
وہ اس لیے کہ جب بھی ہندوستان میں خواتین کے تحفظ کی بات آتی ہے تو ہر سطح پر بڑی کوتاہیوں کے ثبوت بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نربھیا فنڈ ہو یا جسٹس ورما کمیشن کی سفارشات کا نفاذ، عدم تحفظ کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ اگر کچھ تبدیلی آئی بھی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی پیٹھ تھپتھپانے لگیں۔ سرکاری دستاویزات میں نربھیا فنڈ سے پولیسنگ کو مضبوط اور فعال کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ لیکن زمین پر ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس اس فنڈ سے خریدی گئی گاڑیاں وی آئی پی سیکیورٹی کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ اعلیٰ نظریات کے باوجود پولیس کی نا اہلی، غیر حساس طرز عمل، مناسب تربیت کا فقدان اور تھانوں تک ہر سطح پر حساسیت ہے۔ دہلی کی یہ پولیس کبھی اپنے آپ کو دل کی پولیس کہا کرتی تھی لیکن آج اس کا روپ بدل گیا ہے۔ تازہ ترین کیس میں وہ خود ملزم سے زیادہ سوالات کے کٹہرے میں ہیں۔ ملزم لڑکی کو گھسیٹتا رہا لیکن پی سی آر کو فون کرنے کے بعد بھی نہ جانے کیوں پولیس نے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اطلاع ملنے کے بعد بھی پولیس کو موقع پر پہنچنے میں 47 منٹ کیسے لگے؟ علاقے میں گھومنے والے پی سی آر کو بھی اس کا سراغ کیوں نہیں ملا؟ سی سی ٹی وی سے آئے روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ واردات کے وقت ان پر نظر کیوں نہیں رکھی گئی؟
حادثے کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آگئی ہے جس میں ملزم کی گاڑی کو 2 بجے کے قریب جائے حادثہ سے صرف 100 میٹر کے فاصلے پر کافی دیر تک کھڑا دیکھا گیا۔ اگر حادثہ 3 بجے کے قریب ہوا تو گاڑی رات 2 بجے جائے حادثہ کے قریب کیا کر رہی تھی؟ پولیس تھیوری کے مطابق ملزمان مورتھل سے آرہے تھے تو جائے حادثہ پر صبح 2 بجے ان کی گاڑی سی سی ٹی وی میں کیسے قید ہوئی؟ کیا حادثہ 2 بجے کے قریب ہوا تھا؟ کیا ملزمان نے جائے حادثہ سے تقریباً 100 میٹر کے فاصلے پر اپنی کار سے ڈپر مارنا، کیا کسی کو کوئی اشارہ تھا؟ کیا دوسری گاڑی میں ملزم کے ساتھ کوئی اور ساتھی بھی تھا؟ پولیس خود مانتی ہے کہ کار کے بمپر میں پھنسی لاش ملنے کے بعد بھی ملزم لڑکی کو اس علاقے میں کئی کلومیٹر تک گھسیٹتا رہا۔ کیا ملزم بمپر میں پھنسی بچی کی موت کو یقینی بنانا چاہتا تھا؟ تو کیوں نہ مان لیا جائے کہ یہ محض ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک منصوبہ بند قتل تھا۔
پولیس کی کم از کم 10 گاڑیاں، جن میں ایک پی سی آر وین اور ایک نائٹ پٹرولنگ یونٹ شامل ہے، کہا جاتا ہے کہ ملزمان کا پیچھا کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ ان 10 گاڑیوں میں سے تین پی سی آر وین بھی ملزمان کی گاڑی کا پیچھا کرتی رہیں لیکن گھنے دھند کے باعث ایسا نہ کر سکیں۔ مزید یہ کہ ملزمان اپنی گاڑی مین روڈ کی بجائے تنگ گلیوں سے لے جا کر پولیس کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اب ایسی دلیل دے کر جو سیکورٹی سسٹم خود ہی سوالوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ خواتین کو خوفناک مجرموں سے کیا تحفظ دے گا، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جب نیشنل کرائم بیورو (این سی آر بی)، جرائم کا سراغ لگانے والا ادارہ، مرکزی زیر انتظام علاقوں میں خواتین کے خلاف جرائم کے معاملے میں دہلی کو پہلے نمبر پر رکھتا ہے۔ یہی نہیں، ملک کے 19 میٹروپولیٹن شہروں میں خواتین کے خلاف جرائم کے کل کیسز کا 32.20 فیصد دہلی کا ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں دہلی میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں سالانہ ایک ہزار سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں دہلی میں روزانہ اوسطاً دو ریپ کے واقعات درج ہوئے۔ مسئلہ صرف دہلی کا نہیں، آج پورے ملک میں خواتین کی حفاظت پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2012 میں، جس سال نربھیا واقعہ ہوا تھا، ملک میں خواتین کے خلاف 2,44,270 جرائم درج کیے گئے تھے۔ سال 2021 تک یہ تعداد ڈیڑھ گنا سے زیادہ بڑھ کر 4,28,278 تک پہنچ گئی ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ خواتین پر تشدد کا مسئلہ اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ صرف سخت قوانین بنانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کو مجموعی طور پر جانچنا ہوگا، چاہے وہ معاشرے کی سطح پر اصلاحات ہوں، ہمارے نوعمروں اور نوجوانوں کی مناسب پرورش ہو، پولیس افسران اور پولیس اہلکاروں کی تربیت ہو یا پولیس سے لے کر عدالتوں تک اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی مناسب شرکت کو یقینی بنانا ہو۔ جس طرح ہمارے نوجوانوں کی پرورش اور تعلیم ہو رہی ہے اور جس طرح وہ دن رات قانون کو ہاتھ میں لے رہے ہیں، رات کو شراب پی رہے ہیں اور تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہے ہیں، یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر خواتین کی حفاظت کو لے کر زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا جاتا ہے تو نربھیا، کنجھا والا جیسے معاملات کو روکا نہیں جاسکےگا۔ کسی کوتاہی کو غلطی کے طور پر نہ لیا جائے بلکہ اس کوتاہی کے ذمہ داروں کے ساتھ جلد از جلد اور سخت ترین طریقے سے نمٹا جائے۔ اس سے نمٹنے کا طریقہ بھی ایسا ہونا چاہیے کہ مثال بن کر نہ صرف مجرم بلکہ اہل وطن بھی اسے مدتوں یاد رکھیں اور مستقبل میں 13 کلومیٹر تک گھسیٹے جانے کے بجائے ایسے کسی کام کو روکنے کا حوصلہ پیدا کریں۔
-بھارت ایکسپریس