ایک چوتھائی سال سے جاری روس اور یوکرین جنگ میں جوہری جنگ کا خطرہ ایک بار پھر لوٹ آیا ہے۔ مہینوں کی دھمکیوں کے بعد بالآخر روس نے بیلاروس میں اپنا پہلا ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار تعینات کر دیا ہے۔ اس تعیناتی کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے یہ کہہ کر آگ میں گھی ڈال دیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے خطرے کو حقیقت میں بدلنے کا امکان ہے۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس سے باہر اس طرح کے ہتھیاروں کی یہ پہلی تعیناتی ہے۔ ان ہتھیاروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ امریکہ کی طرف سے 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں سے تین گنا زیادہ طاقتور ہیں۔
تاہم اس پیش رفت پر فوری طور پر کسی بڑے ردعمل کا کوئی امکان نہیں ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اس تعیناتی کے باوجود وہ اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ روسی صدر پوتن نے بھی اسے اپنے اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کا ایک حصہ بیلاروس منتقل کرنے کے اپنے وعدے پر عمل درآمد قرار دیا ہے۔ پیوتن نے اس کا اشارہ گزشتہ ماہ اس وقت دیا جب روس نے اس موضوع پر بائیڈن کی تنقید کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ امریکہ کئی دہائیوں سے یورپ میں ایسے جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کر رہا ہے۔
لیکن اگر سب کچھ معمول کے مطابق ہے تو پھر روس کو یہ قدم اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ درحقیقت یوکرین کی طویل جنگ کی وجہ سے روس پر اپنی ترجیحات میں تبدیلی کے لیے دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ اس میں جنگ کے حوالے سے مغربی ممالک اور نیٹو کی موجودہ پالیسیوں کو پلٹنے کے بجائے روس کے لیے مسائل پیدا کرنے والے نئے اقدامات کو روکنے کی زیادہ مجبوری ہے۔ ان میں نیٹو کو یوکرین پر نو فلائی زون نافذ کرنے سے روکنا، روسی افواج کو متنازع علاقے سے نکالنا اور روس پر نئی پابندیاں عائد کرنا شامل ہیں۔
اگر روس واقعی جوہری کارڈ کو اپنے فوری خدشات اور عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کر رہا ہے، تب بھی اس کے حدود ہیں کہ وہ ان دھمکیوں سے کتنا کچھ حاصل کرپائے گا۔ مثال کے طور پر، جنگ کے آغاز میں، روس نے دھمکی دی تھی کہ اگر نیٹو میں توسیع کی گئی تو جوہری نتائج بھگتنے ہوں گے۔ پھر بھی وہ فن لینڈ کو نیٹو میں شمولیت سے نہیں روک سکا۔ روس نے یوکرین کو دی جانے والی مغربی امداد کو روکنے کے لیے جوہری داو بھی کھیلا لیکن وہ بھی کامیاب نہیں ہوا۔ یوکرین کے روس پر جوابی حملے اسی سال مارچ میں اس وقت شدت اختیار کر گئے جب روسی فیڈریشن کی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین دمتری میدویدیف نے ممکنہ جوہری تباہی سے خبردار کیا۔ یقیناً روس یہ امید بھی کر سکتا ہے کہ اس کی دھمکیوں سے ڈرتے ہوئے نیٹو ممالک اور یوکرین اپنا موقف نرم کر لیں گے اور اس کے علاقائی فوائد کو تسلیم کر لیں گے۔ لیکن یہ بھی اس وقت بعید از قیاس لگتا ہے۔ ایسا کوئی راستہ نظر نہیں آتا جو روس کو فتح کی طرف لے جاتا ہو۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ میدان جنگ میں کوئی ایسا غیر متوقع واقعہ رونما ہو جائے جو روس کی قسمت بدل دے، ایسی صورت حال میں بھی مغربی ممالک یوکرین کی امداد کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فوری ردعمل میں مغربی ممالک کا تحمل بھی ختم ہو جائے۔ اور اسی لیے ایسا لگتا ہے کہ اپنا سب کچھ داو پر لگادینے کے بعد بھی خالی ہاتھ روس میں بے چینی اور گھبراہٹ بڑھ رہی ہے۔ اضطراب امریکہ میں بھی ہے جہاں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں اور بائیڈن انتظامیہ یوکرین کو اپنے لیے دوسرا افغانستان ثابت ہونے کے خدشہ کو لیکر پوری طرح سنجیدگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
روس کی نیوکلیئر تعیناتی پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ روس کا دوست چین بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے کیونکہ پوتن کا بیلاروس جوہری منصوبہ یوکرین میں کسی نہ کسی طرح امن قائم کرکے اپنے عالمی قد کو بڑھانے کی چین کی کوشش کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔ پوتن اور جنپنگ نے چند روز قبل جوہری ہتھیاروں کو بیرون ملک تعینات نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور ساتھ ہی ایسا کرنے والے ممالک کو اپنے علاقوں سے باہر تعینات ہتھیار واپس لینے کا مشورہ دیا تھا۔
ایسے ماحول میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے رواں ہفتے کے اوائل میں بیجنگ کے دورے نے بھی کئی نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں پہلی بار کوئی امریکی وزیر خارجہ چین گیا ہے۔ اس دورے کی خاص بات یہ رہی کہ جاسوسی غبارے اور یوکرین پر حالیہ کشیدگی کے باوجود تعلقات کو مستحکم کرنے کے معاملے پر دونوں فریقوں کے درمیان اتفاق نظرآیا۔ پوتن کی دھمکی کے درمیان، بین الاقوامی برادری دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی موجودہ صورتحال پر تشویش میں مبتلا ہے اور وہ کسی قسم کا تصادم یا ٹکراو نہیں دیکھنا چاہتی۔ اس ملاقات کے بعد، بلنکن نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ بلاشبہ اختلافات برقرار ہیں اور یہ کہ اس دورے سے امریکی برآمدی پابندی یا تائیوان جیسے متنازعہ مسائل پر کوئی متوقع پیش رفت نہیں ہوئی۔ تائیوان کے اہم مسئلے پر، بلنکن نے امریکہ کی سرکاری ون چائینہ پالیسی اور پرامن صورتحال کو برقرار رکھنے کی خواہش کا بھی اعادہ کیا۔
حالیہ مہینوں میں، بائیڈن انتظامیہ نے عالمی سیاست میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو تسلیم کرنے میں اپنی ہچکچاہٹ کو توڑا ہے۔ یوکرین کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد کیلئے چین کی پیشکش کا اس میں بڑا ہاتھ ہے۔ امریکہ نے چین کی جانب سے روس کو جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کے انتباہ کو بھی سراہا ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ روس کے ساتھ کوئی معاہدہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پوتن کو بھروسہ ہے کہ وہ یوکرین اور اس کے اتحادیوں سے آگے نکل سکتے ہیں۔ یقیناً چین کی حمایت سے مل رہی طاقت ہی اس اعتماد کی ایک مضبوط بنیاد ہے۔اس لئے یوکرین جنگ کے تباہی کی طرف بڑھنے کے خدشے کے درمیان اگر امریکہ اور چین کافی حد تک ایک زبان بول رہے ہیں تویہ بھی اچھی بات ہے۔ بھارت کے علاوہ چین ہی وہ دوسری طاقت ہے جو اس وقت روس کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بدقسمتی سے، اس کے علاوہ عالمی برادری کے پاس جوہری خطرات کے استعمال کو روکنے کی بہت کم طاقت ہے۔ اگرچہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ ٹی پی این ڈبلیورسمی طور پر جوہری دھمکیاں دینے پر پابندی لگاتا ہے، لیکن نہ تو روس اور نہ ہی کسی دوسری جوہری ریاست نے اس معاہدے میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ویسے بھی گزشتہ سال فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد سے پوتن نے کئی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لیے تازہ معاملے میں شاید کوئی یہ یقین نہیں کرنا چاہے گا کہ جوہری ہتھیار استعمال کیے جائیں گے، لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک دنیا میں جوہری ہتھیار موجود ہیں، ان کے استعمال کا امکان بھی تصورنہیں، حقیقت ہے۔ جس کی طرف بائیڈن نے اشارہ کیا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔