وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فائل فوٹو)
سال 2022 کی بات ہے۔ دنیا کی معروف نیوزمیگزین میں شامل ٹائم میگزین کے کورپیج پرایک جانا پہچانا چہرہ تھا۔ یہ چہرہ تھا وزیراعظم نریندر مودی کا۔ نریندر مودی تب ہندوستان کے وزیراعظم نہیں بنے تھے، لیکن گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر 11 سالوں کی مدت مکمل کرچکے تھے۔ ظاہر سی بات ہے کئی لوگوں نے اتنی مشہور میگزین میں ان کی تصویر چھپنے کو گجرات کے ترقی کے ماڈل سے جوڑ کر دیکھا۔ تصویر کے ساتھ کیپشن لگا تھا- ‘مودی مینس بزنس’ (مودی کا مطلب کاروبار) بھی اس سمجھ کو تقویت دینے کے لئے کافی تھا۔ اس کیپشن کے ساتھ ایک ذیلی جملہ بھی تھا، جوان کی قابلیت پر اٹوٹ بھروسہ رکھنے والے لاتعداد حامیوں کو سوال کی طرح کھٹک رہا تھا، ‘بیٹ کین ہی لیڈ انڈیا’ جس کا اردو ترجمہ ہوتا ہے کہ (لیکن کیا وہ بھارت کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟)
ایک دہائی بعد اب یہ سوال نہ صرف غیر متعلق ہوچکا ہے بلکہ نریندر مودی جیسی شخصیت کی صلاحیتوں کو سمجھنے میں بھی پوری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کیونکہ نریندر مودی آج نہ صرف ہندوستان کےغیرمتنازعہ رہنما کے طور پرقائم ہیں، بلکہ وہ عالمی امنگوں اورامیدوں کی سب سے بڑی علامت بھی بن چکے ہیں۔ وزیراعظم کے طور پر ان کے 9 سال کی مدت میں اس بات کے کئی ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ تازہ مثال پوری دنیا کی ایوی ایشن انڈسٹری کی اب تک کی سب سے بڑا معاہدہ ہے، جس کے تحت ہندوستانی فضائی کمپنی ایئرانڈیا نے فرانس کی ایئربس اورامریکہ کی بوئنگ سے کل 470 طیاروں کا آرڈر دیا ہے۔ اس تاریخی سودے نے ہندوستان ہی نہیں دنیا کے ہوا بازی کے شعبے کے لئے سنہرے مواقع کا نیا باب کھول دیا ہے۔
وبا کے بعد کساد بازاری کی چپیٹ میں الجھی دنیا کے لئے یہ سودا کتنا بڑا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ دنیا کے سرفہرست معیشتوں میں شامل تین بڑے ترقی یافتہ ممالک امریکہ، برطانیہ اور فرانس جو باقی دنیا کے شہری آج بھی اپنی منزل بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہی ملک اپنے خواب پورے کرنے کا ذریعہ بننے کے لئے ہندوستان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس سودے کو تاریخی بتایا ہے تو فرانس کے صدر ایمونیئل میکرون ان کے ملک پریقین کرکے آپسی تعلقات میں ایک نئے مرحلے کی شروعات کے لئے وزیراعظم مودی کے سجدے میں دوہرے ہوئے جا رہے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم رشی سنک کا بھی یہی حال ہے، جو دہائیوں میں ہندوستان کے ساتھ ہوئے اس سب سے بڑے ایکسپورٹ ڈیل کی وجہ سے اب وہ اپنی پسماندہ معیشت کو پٹری پرلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
امیرمعیشتیں بغیرمفاد کے دوسرے ممالک کی تعریف نہیں کرتیں۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ دراصل ایوی ایشن سیکٹر میں ‘مدرآف آل ڈیل’ کہی جارہی اس ڈیل نے مشکلات سے گھرے ان ممالک کو ایک نئی سنجیونی دی ہے۔ امریکہ میں اس وقت کساد بازاری کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں وہاں تقریباً تین لاکھ سے زیادہ افراد کی نوکری جاچکی ہے۔ آنے والے دنوں میں ہر 10 میں 6 کمپنیاں اپنے ملازمین کو نوکری سے نکالے گی۔ ایسے وقت میں ہوئی اس ڈل سے امریکہ کے 44 ریاستوں کے 10 لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ برطانیہ کے حالات بھی خراب ہیں۔ وہاں 24-2023 میں معیشت کے صرف 0.3 فیصد بڑھنے کا اندازہ ہے اور مسلسل چھٹنی ہونے سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی نوکریاں بھی جارہی ہیں۔ چونکہ برطانوی کمپنی رولس رائس ہی ایئربس کا انجن بناتی ہے، اس لئے یہ ڈیل برطانیہ میں بھی روزگار کے لاکھوں نئے مواقع کھولے گی۔
یہ سوچنے میں کتنے فخرکی بات ہے کہ یہ سب ایک بھارتی کمپنی کے توسیعی منصوبے اوربھارتی قیادت کی دوراندیشی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ تصور کیجئے، اس نظریے کا جب اس ڈیل کے موقع پر فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون ویڈیو کال پراورامریکی صدر جو بائیڈن آڈیو کال پر وزیراعظم مودی کے ساتھ ڈیل کے موقع پراپنی خوشی بانٹنے کے لئے بے تاب تھے اور معاہدے کے ایک اور فائدہ اٹھانے والے برطانوی وزیراعظم رشی سنک کے جوش کو سمیٹنے کے لئے ٹوئٹر کے الفاظ کی حد آڑے آرہی تھی۔
بے شک یہ سانحہ ہندوستان کے لئے بھی اہم ہے۔ یہ سودا ایسے وقت میں آیا ہے جب ہندوستان 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کی سمت میں اپنی کوششوں کو سرگرم طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔ مستقبل قریب میں ہندوستان ہوابازی کے شعبے میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بازار بننے جا رہا ہے۔ آئندہ 15 برسوں میں 2,000 سے زیادہ طیاروں کی ضرورت ہوگی۔ گزشتہ 8 سالوں میں ملک میں ہوائی اڈوں کی تعداد 74 سے بڑھ کر 147 ہوگئی ہے۔ اڑان اسکیم کے ذریعے ملک کے دور درازعلاقوں کو بھی فضائی رابطہ کے ذریعے جوڑا جا رہا ہے، جس سے لوگوں کی اقتصادی اور سماجی ترقی کو فروغ مل رہا ہے۔ ‘میک ان انڈیا – میک فار دی ورلڈ’ کا وژن ایرواسپیس مینوفیکچرنگ کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں امکانات کے نئے دروازے کھول رہا ہے۔
آج دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہندوستان کا مطلب بزنس ہے اوراس میں نریندر مودی کا بڑا کردار ہے۔ آج ہندوستان جی-20 میں سب سے تیزی سے بڑھتی معیشت نمبرایک اسمارٹ فون ڈیٹا کنزیومرانٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ عالمی ریٹیل انڈیکس میں دوسرا اور دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم والا ملک ہے۔ گزشتہ سال میں ملک میں اب تک کی سب سے زیادہ غیرملکی سرمایہ کاری آئی ہے۔ یہ سب کچھ ہندوستان پر دنیا کے بڑھتے ہوئے بھروسے کے سبب ہی تو ہے۔ وبا کی خطرناک پیشین گوئی کو خارج کرنا ہو تو ہندوستان کے ذریعہ تیار کیا گیا ٹیکہ دنیا کا حفاظتی دستہ بنتا ہے۔ دنیا پر عالمی جنگ کا خطرہ منڈراتا ہے تو روس-یوکرین جنگ کو سادھنے کے لئے ہندوستان کا منہ دیکھا جاتا ہے۔ چین کا چکرویو توڑنا ہو تو امریکہ-جاپان-آسٹریلیا ہندوستان کی دوڑ لگاتے ہیں۔ سری لنکا جیسا پڑوسی اقتصادی طور پر تباہ ہوتا ہے تو ہندوستان کی مالی مدد میل کا پتھر ثابت ہوتا ہے۔ جب قدرت کے غصے سے زمین ڈولتی ہے تو ترکیہ کے بھروسے پر ہندوستان چٹان ک طرح ڈٹ کر سامنے آتا ہے۔
خود انحصاری کے راستے پر کلانچے بھر رہا ہندوستان آج اپنی قیادت کو ریفارم، پرفارم اور ٹرانسفارم کے منتر سے متعارف کر رہا ہے۔ اپنے درست تبصروں کے لئے دنیائے کھیل کے مشہور کمینٹیٹر ہرش بھوگلے نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ کس نے سوچا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب کوئی امریکی صدرایک سرکاری بیان جاری کرکے اس بات کا اعتراف کرے گا کہ ایک ہندوستانی کمپنی 10 لاکھ امریکیوں کو روزگار دے گی۔ تبدیلی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ جہاں یو پی اے دور میں چھوٹے سودے بھی بدعنوانی کے بڑے گھوٹالوں کا شکار ہوتے تھے، آج ملک میں ایسے بڑے سودے بھی پوری شفافیت کے ساتھ انجام پاتے ہیں۔
تبدیلی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جہاں یو پی اے دور میں چھوٹے سودے بھی بدعنوانی کے بڑے گھوٹالوں کا شکار ہوتے تھے، وہیں آج ملک میں اتنی بڑی ڈیل بھی پوری شفافیت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ ورک کلچر میں آئی تبدیلی کا عالم یہ ہے کہ اس ڈیل سے متعلق کچھ افسران نے آف دی ریکارڈ بات چیت میں مجھ سے یہ بات قبول کیا کہ جتنی بڑی تعداد میں اور جس تیزی سے اس سودے کی فائلیں آگے بڑھی ہیں۔ ویسا ان کی یاد میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔
نیا بھارت بڑے خواب دیکھنے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی ہمت دکھا رہا ہے۔ پہلے صرف غریبی، بیرون ممالک سے پیسے مانگنے اور کسی طرح گزارا کرنے کی بحث ہوتی تھی۔ اب پوری دنیا میں ہندوستان کے بارے میں مثبت تاثرات ہیں۔ ملک میں ایک غیرمعمولی اعتماد ہے جواپنے مستقبل کے وژن اورجدید نقطہ نظرکے ساتھ اچھی طرح ترقی کر رہا ہے۔ عالمی اقتصادی کساد بازاری کے درمیان، ہندوستان نے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنا جاری رکھا ہے، جو ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے سمت میں ہماری وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ملک کے لئے سرشار کوششوں کا نتیجہ ہے کہ کبھی گیہوں (گندم) کے لئے بھارت کو ‘بھکاریوں کا ملک’ بتانے والا امریکہ بھی آج اپنے چیلنجزکے حل کی راہ تلاش کرتے ہوئے ہندوستان کے سامنے وہ عرضی گزار کے کردار میں کھڑا ہے۔