Bharat Express

Dorsey’s Dodgy take on Indian Democracy: Anti-India Gang At Work Again: ڈیموکریسی پر ڈورسی کے سوال: اینٹی انڈیا گینگ کا نیا شگوفہ

ٹوئٹر پرقبضہ کے بعد ایلون مسک کے ’ٹوئٹر فائلس‘ کے نام سے جوانکشاف کئے تھے، وہ بھی ڈورسی کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔

June 17, 2023

جیک ڈورسی اور وزیر اعظم نریندر مودی۔

گزشتہ کچھ دنوں میں ہندوستان کی جمہوریت سے متعلق اچانک ہی دنیا کی دلچسپی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ غیرمتوقع سے زیادہ اسپانسرڈ لگتا ہے۔ تازہ ترین معاملہ سماجی بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر کے سابق سی ای اوجیک ڈورسی کا ہے، جن کے ہندوستان کی جمہوریت پر تبصرے نے ملک کی سیاسی برادری کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یوٹیوب کو دیئے گئے انٹرویو میں ہندوستانی جمہوریت کے بارے میں ڈورسی کی رائے کو پڑھنے اور سننے کے بعد پہلا تاثریہ ہے کہ وہ حقائق پر مبنی نہیں بلکہ الزامات پر مبنی ہیں۔ ڈورسی کے مطابق، ہندوستانی جمہوریت حکومت کے کنٹرول میں ہے، جہاں اظہار رائے کی آزادی اقتدار میں رہنے والوں کے رحم وکرم پرہے۔ اس دائرہ کارسے باہر کی ہرآواز کو روک کر یا دبا کر سنسرکردیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت پر ڈورسی کے اس طویل طنزکا نچوڑ یہ کہنے کی کوشش ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کے نام پرجو کچھ دیکھا جاتا ہے وہ حقیقت نہیں بلکہ ایک فریب ہے۔ جمہوریت پر ڈورسی کے اس سلسلے نے ہندوستانی سیاست کو دوخیموں میں تقسیم کردیا ہے۔ اس میں ایک طرف حکمراں جماعت ہے جو ڈورسی کو جھوٹا قراردے رہی ہے اور دوسری طرف اپوزیشن ہے، جسے بیٹھے بٹھائے حکومت کو گھیرنے کا ہتھیارمل جانے سے ڈورسی میں جمہوریت کے مسیحا کی شبیہ دکھائی دے رہی ہے۔

یہ سب ثابت کرنے کے لئے ڈورسی نے کسان تحریک کا حوالہ دیا ہے۔ ہندوستان میں کسان آندولن دسمبر 2020 میں شروع ہوئی اور2021 کے آخرمیں ختم ہوگیا۔ اس دوران ڈورسی نومبر2021 تک ڈورسی ٹوئٹرکے سی ای او رہے۔ ان کے مطابق، کسان آندولن کے دوران ہندوستانی حکومت نے ٹوئٹرپرتحریک کے حامیوں کے ٹوئٹراکاؤنٹ بند کرنے کا دباوٗ بنایا اور ایسا نہیں کرنے پر ٹوئٹر کے ملازمین کے گھروں پر چھاپے مارنے اور ہندوستان میں ٹوئٹر کے دفترکو بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے ان الزامات کو سلسلسہ وار طریقے سے مسترد کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق نہ توٹوئٹرکے دفترپرکبھی چھاپہ مارا گیا اور نہ ہی کسی کو جیل بھیجا گیا۔ الزامات کے برعکس حکومت کا کہنا ہے کہ ٹوئٹرخود ڈورسی کے دورمیں منمانی، بھید بھاوٗاورمتعصبانہ برتاؤ کر رہا تھا۔ نہ تو وہ ہندوستانی قوانین پرعمل کر رہا تھا اورنہ ہی غلط معلومات ہٹانے کے لئے تیارتھا، لیکن ملک کی سیاسی اپوزیشن نے حکومت کی دلیل سے زیادہ ڈورسی کے الزامات پراعتماد کا اظہارکیا ہے۔ کانگریس کے مطابق، ڈورسی کے جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہیں، شیوسینا ادھو گروپ نے براہ راست وزیراعظم کو نشانہ بناتے ہوئے پوچھ لیا ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے یا مودی کریسی؟

سیاسی بیان بازیوں کا اپنا الگ مقصد، الگ میدان ہوتا ہے، لیکن سیاست سے بالاترہوکرایک قطعی جائزہ لیں تو ڈورسی کے بیان پرکتنا اعتبارکیا جانا چاہئے؟ وہ بھی اس وقت جب کسان آندولن کے دوران ان کی سرگرمیاں واضح طور پر ایک کیمپ کے حق میں دکھائی دے رہی تھیں- جیسے کسان آندولن کی حمایت میں ان کی طرف سے سنگر رہانہ اور گریٹا تھنبرگ سمیت واشنگٹن پوسٹ کے صحافیوں کے ٹوئٹ کو لائک کرنا۔ کوئی بھی شخص کسی آندولن کی حمایت لینے کے لئے آزاد ہے، لیکن ڈورسی کے معاملے میں اسے اس لئے قابل اعتراض مانا جائے گا۔ کیونکہ انہوں نے ایسا ٹوئٹر کے سربراہ رہتے ہوئے کیا۔ اس لئے سوال اٹھنا لازمی ہے کہ اگر ٹوئٹر کے سربراہ رہتے ہوئے ڈورسی اور ان کی ٹیم کسی نظریے کو ٹرینڈ کرانے میں مصروف تھی تو اسے منصفانہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اتنا ہی نہیں، ٹوئٹر نے سال 2021 میں کسان لیڈر راکیش ٹکیٹ کا اکاوٗنٹ بھی ایسے وقت ویریفائی کیا تھا جب ٹوئٹر کی طرف سے کسی بھی اکاوٗنٹ ہولڈر کو یہ سہولت دینے پر پابندی لگی ہوئی تھی۔

اسی دوران دہلی پولیس نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ 13 سے 18 جنوری کے درمیان صرف پانچ دنوں میں پاکستان میں 308 ٹوئٹرہینڈل بنائے گئے جو ہندوستان میں کسانوں کی تحریک کو فروغ دینے میں سرگرم تھے، لیکن ٹوئٹرکی طرف سے اس پرایکشن لینے میں بھی کافی ٹال مٹول کی گئی۔

تحریک کے حامیوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس پر پابندی لگانے کا ڈورسی کا دعویٰ بھی سچائی کی کسوٹی پر کھڑا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، ٹوئٹر نے اس وقت کے نائب صدر وینکیا نائیڈو اور اس وقت کے وزیر قانون روی شنکر پرساد کے اکاؤنٹس پر پابندی لگا دی تھی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی ڈی پی کو ہٹا دیا تھا۔ اگر حکومت کی طرف سے دباؤ ہوتا تو کیا ٹویٹر ایسا کرنے کی ہمت کرتا؟ اس دوران کانگریس اور راہول گاندھی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی کچھ دیر کے لیے بلاک کر دیا گیا۔ حالانکہ کانگریس نے اس کے لیے ‘سرکاری دباؤ’ کے نظریہ کو اپنی تنقید کا ہتھیار بنایا تھا۔

ٹوئٹر کے انچارج رہتے ہوئے ڈورسی پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وہ ہندوستان مخالف لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان میں ٹوئٹر کی قانونی اور پالیسی ساز ٹیم کی اس وقت کی سربراہ وجیا گڈے کا نام بھی شامل ہے۔ وجیا گڈے کا اثر اتنا تھا کہ ان کے حکم پر اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی گئی۔ وجے گاڈے ہندوستان میں بائیں بازو کے نظریات کے حامیوں کے بہت قریب تھے۔ ایک بار ہندوستان کے دورے پر، ڈورسی کو ایک پلے کارڈ لہراتے ہوئے دیکھا گیا جس میں ان کے کہنے پر مبینہ برہمنی پدرانہ نظام پر تنقید کی گئی تھی۔ تاہم تنازع بڑھتے ہی وجئے کو اس حرکت پر معافی مانگنی پڑی۔

ٹویٹر کے حصول کے بعد ایلون مسک کے ‘ٹوئٹر فائلز’ کے نام سے کیے گئے انکشافات نے ڈورسی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ اس انکشاف کے مطابق ڈورسی کے دور میں ٹوئٹر نے ایسی افلاطون بنائی تھی جو اس کے نظریے سے مطابقت نہ رکھنے والے لوگوں کی فہرست بنا کر انہیں بلیک لسٹ کرتی تھی۔ ایسے لوگوں کے ٹوئٹس کو ٹرینڈ نہیں کیا جا سکتا اور ان کی پہنچ بھی محدود رکھی گئی۔ اس صوابدیدی پالیسی کو ‘Visibility Filtering’ کا نام دیا گیا اور اس پر اس قدر ڈھکے چھپے طریقے سے عمل کیا گیا کہ صارف کو اس کا سراغ تک نہیں مل سکا۔ ایک طرح سے، یہ گروہ ٹویٹر کو اپنی انگلی پر چلا رہا تھا اور اپنی پسند کا بیانیہ ترتیب دے رہا تھا۔ رسائی، پسند، ری ٹویٹ سے لے کر ٹرینڈنگ اور رائے سازی تک، اس ٹیم کی تمام ہتھیاروں پر اجارہ داری تھی۔ یعنی اگر اس افلاطون کو زیادہ وقت اور موقع مل جاتا تو وہ اپنے جنون کی تکمیل کے لیے کسی بھی ملک کے اندر انتشار جیسی صورتحال یا دو ملکوں کے درمیان تناؤ کو اپنے عروج پر پہنچا سکتے تھے۔
ایک اور اہم سوال؟ ڈورسی جس مبینہ تجربے کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ دو سال پرانا ہے۔ کس مجبوری کے تحت اس نے دو سال تک اپنے ہونٹ سلائے رکھے۔ اور آج جب بند ہونٹ کھلے ہیں تو اس کے پیچھے کیا محرک ہے؟ کہیں اس ٹائمنگ کی وجہ وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ امریکہ ہے، جس کا انتظار وائٹ ہاؤس پہلے ہی ہندوستان کی جمہوریت کی رونق کا مداح بن چکا ہے۔ حکومت ہند پر جمہوریت کو کھلونا بنانے کا الزام لگانے والے ڈورسی خود بھارت مخالف ٹولے کا کھلونا نہیں بنے ہیں جو دنیا میں ہندوستان کے بڑھتے قد کو روکنے کے لیے نت نئے حربے اپناتا رہتا ہے۔ ویسے یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر ہندوستان کی جمہوریت وہی ہوتی جو ڈورسی بتا رہے ہیں، تو کیا ہم نے اس کے ہنگامے پر اپوزیشن کا ایسا کھلا احتجاج سنا؟

 بھارت ایکسپریس۔

Also Read