جیت کر بھی 'دِلّیِ دور' ! Delhi is still far for Kejriwal despite MCD victory
ہندوستانی ثقافت میں لفظ ‘آپ’ کو عزّت کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا ملک کے سیاسی کلچر میں AAP (عام آدمی پارٹی) کو بھی یہ احترام حاصل ہوا ہے؟ سوال سیدھا ہے لیکن اس کےجواب کے لئےکئی سطح کے تجزیوں کی ضرورت ہے۔ دہلی اور پنجاب کے اسمبلی انتخابات کے بعد ایم سی ڈی انتخابات میں جیت کے باوجود، ایسے کسی نتیجے پر پہنچنا بہت جلدبازی ہو سکتی ہے۔
اس تشخیص کا پیمانہ شاید زیادہ مثبت ہوتا اگر AAP نے اسمبلی انتخابات کی طرح MCD انتخابات میں بھیویسی ہی کامیابی حاصل کی ہوتی جہاں اس نے ایک باوقار جیت حاصل کی تھی لیکن بی جے پی اتنی بری طرح نہیں ہاری جتنی کہ تقریباً ہر ایگزٹ پول میں پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس لیے ان نتائج کا پہلا تجزیہ یہ ہے کہ اسمبلی اور شہری ادارے پر قبضہ کرنے کے باوجود دہلی کا قلعہ عام آدمی پارٹی کے لیے پوری طرح محفوظ نہیں ہے، جہاں آنے والے دنوں میں اس کے لیے کئی چیلنجز منتظر ہیں۔ تاہم اس نے اتنا ضرور کیا ہے کہ 15 سال بعد بی جے پی جو گزشتہ 24 سالوں سے اسمبلی میں جیت کی منتظر تھی اب ایم سی ڈی سے بھی باہر کر دی گئی ہے۔
ظاہر ہے یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا ہے۔ عام آدمی پارٹی پچھلے سال سے اس تبدیلی کی تیاری کر رہی تھی۔ اسی لیے جب ایم سی ڈی میں انتخابی جنگ شروع ہوئی، اس نے بی جے پی کے ڈیڑھ دہائی کے اقتدار کو گرانے کے لیے کئی دراڑوں پر چوٹ کر ان کو اور بڑھا نے میں کامیاب ہوئی ۔ ان میں سے، دو مسائل دہلی کے علاقوں میں سب سے زیادہ گونجتے ہیں – کچرے کا پہاڑ اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں کا ڈھیر۔ خاص طور پر کچرا بی جے پی کو لے ڈوبا۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی میں تعلیم اور صحت کو بہتر بنانے کے دعوے کے ساتھ صفائی کے وعدے کو جوڑ دیا۔ تاہم سیاسی ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اروند کیجریوال نے دہلی کے لوگوں کے سامنے ایک شرط بھی رکھ دی۔ شرط یہ تھی کہ ایک ہی پارٹی کے کونسلر اور ایم ایل اے ہونے سے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوگی۔ دہلی کی کالونیوں میں رہنے والے جانتے ہیں کہ آر ڈبلیو اے (RWA)اکثر عام آدمی پارٹی کے ایم ایل ایز اور بی جے پی کے کارپوریٹروں کے درمیان ‘فٹ بال’ بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں سماعت کا آسمان نظر آیا تو نظریے کی زمین بھی بدل گئی۔ ‘کیجریوال کی سرکار، کیجریوال کا پارشد(Corporator)’ کا نعرہ بی جے پی کی ‘ڈبل انجن’ حکومت کے سامنے نہ صرف ٹکا ہی نہیں رہا، بلکہ بھاری بھی ثابت ہوا۔
یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بی جے پی جو اسمبلی انتخابات میں پہلے سے کئی چالوں کو آگے بڑھاتے ہوئے اپوزیشن کو شکست دینے میں ماہر ہو چکی ہے، ایم سی ڈی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی ‘تخیلی’ کے سامنے کمزور ثابت ہوئی۔ اروند کیجریوال کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والے دہلی والوں کی جیبیں بھرنے کے لیے بی جے پی کے پاس کچھ خاص نہیں تھا۔ مفت بجلی، پانی، بس کو ‘ریوڈی’ کہنا کتنا ہی منطقی کیوں نہ ہو، لیکن جب روزگار کے لیے دہلی آنے والا شخص گاؤں میں پیچھے رہ جانے والے اپنے خاندان میں پیسے ڈالتا ہے، تو یہ چند لوگوں کی بچت کتنی بڑی ہے۔ اس کے لیے ہزار روپے کیا ریلیف ہے، وہی بتا سکتا ہے۔ اور دہلی میں ایسے لوگوں کی تعدادسینکڑوں،ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے، جو اب عام آدمی پارٹی کا ‘وفادار’ ووٹ بینک بن چکے ہیں۔ AAP کی مفت اسکیموں کے جواب کے طور پر، بی جے پی ‘جہاں جھگی، وہیں مکان’ اسکیم لے کر آئی، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور دہلی کے لوگ اپنا ذہن بنا چکے تھے۔
بی جے پی کے لیے اشارہ واضح ہے۔ اسے دہلی کے بارے میں نئے سرے سے سوچنا پڑے گا۔ دہلی کی سیاست میں اس کے پاس ‘مفت بجلی، مفت پانی’ کی پیشکش کو چیلنج کرنے کا کوئی جواب نہیں ہے اور نہ ہی کجریوال کو چیلنج کرنے والا کوئی چہرہ ہے۔ ممبران پارلیمنٹ کا رپورٹ کارڈ اس کی پہچان ہے جہاں گوتم گمبھیر اور کسی حد تک ڈاکٹر ہرش وردھن اور منوج تیواری کو چھوڑ کر باقی چاروں ممبران اسمبلی کے حلقوں میں بی جے پی کو شکست ہوئی ہے۔ تنظیم کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ دہلی بی جے پی میں ایسے نئے لیڈروں کی بہت کمی ہے جو پہلی اور دوسری بار کےووٹروں کو پارٹی سے جوڑ سکیں۔ تاہم، ان سب کے باوجود، بی جے پی کے لیے یہ راحت کی بات ہے کہ دہلی میں اس کا بنیادی ووٹر اب بھی اس کے ساتھ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کم ٹرن آؤٹ اور شکست کے باوجود ان کا ووٹ فیصد نہ بڑھتا۔
ویسے اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ووٹروں میں بی جے پی کے بہت سے کونسلروں کے بارے میں غصہ تھا، لیکن ووٹروں نے مودی برانڈ میں ان کے اعتماد کی وجہ سے اس غصے کو نظر انداز کیا۔ 1998 سے دہلی میں بی جے پی کے اقتدار سے باہر ہونے کے باوجود، دہلی میں گزشتہ تین دہائیوں میں کوئی ایسا انتخاب نہیں ہوا ہے جس میں بی جے پی کا ووٹ شیئر 32 فیصد سے کم ہو۔ اس وجہ سے، کانگریس اور اے اے پی حکومتوں کے دوران بھی ایم سی ڈی پر اس کا کنٹرول برقرار رہا۔ یہاں تک کہ AAP نے 2015 کے اسمبلی انتخابات میں 70 میں سے 67 سیٹوں پر ریکارڈ کامیابی حاصل کی تھی،تب بھی بی جے پی نے صرف دو سال بعد ہوئے MCD انتخابات میں اپنی جیت کا سلسلہ جاری رکھاتھا۔ 2017 کے انتخابات میں بھی بی جے پی کو تقریباً 36.08 فیصد ووٹ ملے تھے۔ پانچ سال بعد اس الیکشن میں ووٹ تین فیصد بڑھ کر 39.09 ہو گئے ہیں۔ 15 سال کے اقتدار کی مخالف حکومت کے باوجود ووٹ شیئر میں اضافہ یقینی طور پر مستقبل کے لیے بی جے پی کو امید دے گا۔
ان سب کے درمیان ملک کے دیگر حصوں کی طرح دہلی بھی کانگریس کے لیے بہت دور دکھائی دے رہا ہے۔ 2017 میں، جب بی جے پی نے ایم سی ڈی کے کل 272 وارڈوں میں سے 181 پر کامیابی حاصل کی تھی اور عام آدمی پارٹی اسمبلی میں اقتدار میں ہونے کے باوجود صرف 48 پر ہی کامیاب ہو سکی تھی، تب بھی کانگریس کارپوریٹر 30 وارڈوں میں کامیاب ہو کر آئے تھے۔ اس بار یہ تعداد اکائی میں سِمٹ کر نو رہ گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ دہلی میں کانگریس کی بنیاد مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔ دراصل سیاست میں کانگریس کے چیلنجز اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس پر کچھ بھی کہنا ناکافی لگتا ہے۔ دہلی میں بھی کانگریس کے لیے ‘سیاسی رات’ کافی لمبی نظر آرہی ہے، جو طاقت اور وسائل کی کمی سے نبرد آزما ہے۔ اسمبلی انتخابات میں حاصل ہونے والے 4 فیصد ووٹوں کا اس بار 12 فیصد ہونا روشنی کی کرن لگ سکتا ہے، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کانگریس کا کمٹڈ اور بنیادی ووٹر نہیں ہے، بلکہ مسلم علاقوں سے بکھرا وہ ووٹ ہے، جو بلقیس بانو اور ہندوستانی کرنسی پر لکشمی و گنیش کی تصویر چھاپنے جیسے معاملات پر عام آدمی پارٹی کی ‘الجھن کی سیاست’ کی وجہ سے یہ کانگریس میں واپس آگئی ہے۔
اب عام آدمی پارٹی کے سامنے اس الجھن کو دور کرنے کے علاوہ دہلی حکومت میں منیش سسودیا، ستیندر جین اور کیلاش گہلوت جیسے اپنے مضبوط وزراء پر لگے بدعنوانی کے داغ کو دھونے کا بھی چیلنج ہوگا۔ ان وزراء پر لگائے گئے الزامات کا ضمنی اثر ایم سی ڈی انتخابات کے نتائج میں نظر آیا جہاں ‘جھاڑو’ نے کام کیا لیکن اسمبلی انتخاب والاجادو نہیں چل سکا۔ ان وزراء پر لگائے گئے الزامات کی وجہ سے وہ بی جے پی کو ‘کٹر ایماندار پارٹی’ کا نعرہ لگانے کے باوجود تین ہندسوں میں آنے سے نہیں روک سکیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تقریباً دس سال کے اپنے سیاسی سفر میں پہلی بار انہوں نے بی جے پی کو براہ راست مقابلے میں شکست دی ہے۔ دہلی اور پنجاب دونوں کی جیت کے وقت مقابلہ میں کانگریس واحد پارٹی تھی۔
عزت و وقار کے سوال کا جس سے میں نے بات چیت شروع کی تھی اس کا جواب اب یہ ملے گا کہ آنے والے دنوں میں عام آدمی پارٹی کی بی جے پی سے لڑائی کا رخ کیا ہو گا؟ اس تصادم کا نتیجہ ملک کی سیاست کے ساتھ ساتھ مخالف کیمپ میں عام آدمی پارٹی کی حیثیت کا بھی فیصلہ کرے گا۔ اپنے آپ کو جدید دور کا ابھیمنیو کہنے والے، اروند کیجریوال سیاست کی ہر بھول بھُلیاّں(چکرویوہ) کو چھیدنے کی ‘گارنٹی’ پر فخر کرتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی اور خود اروند کیجریوال ہندوستانی سیاست میں کس قدر و وقار اور عزّت کے مستحق ہیں، اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوگا کہ وہ اس دعوے پر کس حد تک قائم رہتے ہیں؟