
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پھر حماس کو دھمکی دی ہے۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے “آخری مرتبہ” حماس تنظیم کوخبردارکیا ہے کہ وہ اپنے قبضے میں موجود تمام زندہ اورمردہ یرغمالیوں کو رہا کردے اوراس کی قیادت غزہ کی پٹی سے کوچ کرجائے۔ امریکی صدرنے غزہ کی پٹی کی آبادی کودھمکی دی ہے کہ اگر”آپ لوگوں نے یرغمالیوں کواپنے پاس رکھا توموت سے کا سامنا کرنا ہوگا۔
واشنگٹن نے تصدیق کی ہے کہ اس نے اسرائیل کے مشورے سے فلسطینی تنظیم حماس کے ساتھ براہ راست خفیہ رابطے کئے۔ ٹرمپ کا نیا موقف سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پرسامنے آیا ہے۔ امریکی صدرنے غزہ کے لوگوں پرزوردیا کہ وہ اس وقت درست فیصلہ کریں جبکہ حماس کی قیادت سے مطالبہ کیا کہ یہ ان کے غزہ سے چلے جانے کا مناسب وقت ہے۔
واضح رہے کہ واشنگٹن حماس کودہشت گرد تنظیموں میں شمارکرتا ہے۔ دوسری جانب، مشرق وسطیٰ کے لئے امریکی صدرکے خصوصی ایلچی اسٹیف ویٹکوف باورکرا چکے ہیں کہ وہ خطے کا دورہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ویٹکوف کے مطابق اس دورے تک اسرائیل کو جنگ بندی برقراررکھنا چاہئے، اگرچہ حماس قیدیوں کو آزاد کرنے سے انکارکرچکا ہے۔ یہ بات اسرائیلی اخبار”یدیعوت احرونوت” نے بتائی۔ دوسری جانب ایک با خبراسرائیلی ذریعے نے بتایا ہے کہ حماس مذاکرات میں کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کررہا ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی کے لئے حماس سے ٹرمپ انتظامیہ کا پہلی بار براہ راست رابطہ
امریکی نیوز ویب سائٹ ایگزیوس نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے لئے امریکی انتظامیہ نے فلسطینی مزحمتی تنظیم حماس سے براہ راست رابطہ کیا ہے۔ ایگزیوس نے ان رابطوں کے حوالے سے معلومات رکھنے والے دوذرائع کا حوالہ دیتےہ وئے کہا ہے کہ امریکی حکومت اورحماس کے درمیان بات چیت غزہ میں موجودہ امریکی یرغمالیوں کی رہائی اورجنگ کے خاتمے کے ایک وسیع تر معاہدے کے حوالے سے ہوئی ہے۔ ذرائع نے امریکی میڈیا کوبتایا کہ یہ مذاکرات امریکی صدرکے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلرکی قیادت میں گزشتہ ہفتوں کے دوران دوحہ میں ہوئے۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ رابطہ اس حوالے سے غیرمعمولی ہے کہ امریکہ نے اس سے پہلے حماس سے کبھی براہ راست رابطہ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ امریکہ نے 1997 میں حماس کوایک دہشت گرد تنظیم قراردیا تھا۔ ذرائع کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ نے حماس سے براہ راست بات چیت کے حوالے سے اسرائیل سے مشاورت کی تھی، تاہم اسرائیل کو مذاکرات کی تفصیلات دیگرذرائع سے معلوم ہوئیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق، مذاکرات میں بنیادی طورپرحماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے امریکی شہریوں کی رہائی پربات چیت کی گئی، تاہم اس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اورطویل مدتی جنگ بندی کے امکانات پر بھی گفتگو ہوئی، لیکن کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔
العربیہ اردو کے اِن پُٹ کے ساتھ۔