Bharat Express

Peshawar Bomb Blast: ٹی ٹی پی نے لی پشاور مسجد حملے کی ذمہ داری، 32 ہوئی اموات کی تعداد

پولیس نے بتایا کہ مسجد کے امام صاحبزادہ نور الامین بھی دھماکے میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ عینی شاہد نے بتایا کہ دھماکا تقریباً 1:40 بجے اس وقت ہوا جب ظہر کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔

ٹی ٹی پی نے لی پشاور مسجد حملے کی ذمہ داری، 32 ہوئی اموات کی تعداد

Bomb Blast in Peshawar: مقامی میڈیا کے مطابق، پیر کو پشاور کے پولیس لائنس علاقے کی ایک مسجد میں خودکش دھماکے میں 32 افراد جاں بحق اور 147 زخمی ہوئے ہیں۔ سیکورٹی حکام کےمطابق خودکش حملہ آور نماز کے دوران اگلی صف میں موجود تھا جب اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے ظہر کی نماز ادا کرنے والے درجنوں نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ پشاور کی مسجد پر حملہ ٹی ٹی پی کی جانب سے سیکورٹی فورسز اور ان کی تنصیبات کو نشانہ بنانے والے حملوں کے سلسلے میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔

پولیس نے بتایا کہ مسجد کے امام صاحبزادہ نور الامین بھی دھماکے میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ عینی شاہد نے بتایا کہ دھماکا تقریباً 1:40 بجے اس وقت ہوا جب ظہر کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ دھماکے کے وقت پولیس، فوج اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکار مسجد کے اندر موجود تھے۔ عمارت کا ایک حصہ منہدم ہوگیا ہے اور خاص طور پر نماز کے دوران اگلی صف میں کھڑے افراد کے اب بھی نیچے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ جلد پشاور روانہ ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس حملے کی بھرپور مذمت کی ہے۔ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ میں پشاور کی پولیس لائن مسجد میں نماز کے دوران دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ میری دعائیں اور تعزیت متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی انٹیلی جنس معلومات کو بہتر بنائیں اور اپنی پولیس فورسز کو مناسب طریقے سے لیس کریں۔

زخمیوں کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اسپتال نے شہریوں سے متاثرین کے لیے خون کے عطیات دینے کی اپیل کی ہے۔ پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) اعجاز خان نے میڈیا کو بتایا کہ ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ بہت سے پولیس اہلکار اب بھی ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم فی الحال ریسکیو آپریشن پر توجہ دے رہے ہیں۔

سی سی پی او نے کہا، تقریباً 300-400 پولیس اہلکار عموماً ظہر کے وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ اگر پولیس لائنز کے اندر کوئی دھماکا ہوا ہے تو یہ سیکورٹی کی کوتاہی ہے تاہم معاملے کی تحقیقات سے مزید انکشافات ہوسکتے ہیں۔ ایک عینی شاہد نے میڈیا کو بتایا کہ وہ مسجد جا رہے تھے جب دھماکہ ہوا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ ایک زوردار دھماکہ تھا۔ دھماکے کے بعد ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔

یہ بھی پڑھیں- Pakistan: پاکستان کے شہر پشاور میں زوردار دھماکہ، مسجد کے قریب ہوا دھماکہ،تقریباً 50 افراد زخمی

عینی شاہد نے بتایا کہ واقعہ کے وقت مسجد کے اندر کم از کم 120 لوگ موجود تھے۔ یہ خودکش دھماکہ تھا۔حملہ آور مسجد کے اندرونی صحن میں تھا۔ ظہر کی نماز ابھی شروع ہوئی تھی کہ یہ دھماکہ ہوگیا۔ زخمیوں میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے۔ پشاور کی سول سیکرٹریٹ ایسوسی ایشن کے صدر، تسور اقبال، جو مسجد میں باقاعدگی سے نماز ادا کرتے ہیں، نے کہا کہ پولیس لائنس کے علاقے میں ہمیشہ سیکورٹی کا نظم رہتا ہے، اور کوئی بھی شخص ان کی شناخت اور چیکنگ کے بغیر اندر نہیں جا سکتا۔

اقبال نے کہا، یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔ یہ ایک بڑی مسجد ہے جہاں ایک وقت میں 400-500 لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ہم سن رہے ہیں کہ دھماکے کے بعد عمارت گر گئی۔ صحافی قیصر کا کہنا تھا کہ پولیس لائن پشاور کینٹ کے انتہائی حساس علاقے میں ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایف سی کے اہلکاروں کی بڑی تعداد چوبیس گھنٹے موجود رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (CTD) اور پولیس کے تفتیشی محکمے کے دفاتر وہاں واقع ہیں۔ پولیس ہیڈ کوارٹر میں عام طور پر ایک ہزار پولیس اہلکار موجود ہوتے ہیں۔

صحافی نے بتایا کہ علاقے کے اندر جانے کے لیے دو پولیس چوکیوں پر رکنا پڑتا ہے۔ جیو نیوز نے صحافی کے حوالے سے بتایا کہ ‘تین بار چیک کرنے کے بعد حملہ آور اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا’۔ پشاور خودکش حملہ گزشتہ سال کے بعد پشاور میں دوسرا بڑا مسجد حملہ ہے، کوچہ رسالدار کے علاقے میں ایک شیعہ مسجد میں خودکش دھماکے میں کم از کم 63 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔پشاور میں ہولناک خودکش دھماکے کے بعد اسلام آباد کی سکیورٹی کو بھی ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔

-بھارت ایکسپریس

Also Read