Bharat Express

تشدد سے نمٹنا، متاثرین کی مدد کرنا

آئی وی ایل پی فیض یافتہ پرسنا گیٹو پناہ گاہوں، ہاٹ لائنز اور وکالت کے ذریعے گھریلو تشدد کے متاثرین کو بااختیار بنا رہی ہیں۔

تحریر: پارومیتا پین (رینومیں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیزکی ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں۔)

جہاں زیادہ ترنوعمرلڑکے لڑکیاں رومانوی ناولوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، پرسنا گیٹوجرائم کی کہانیوں کے سحرمیں مبتلا تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میں میگزین دی ڈیٹیکٹیو تلاش کرتی تھی، جس میں حقیقی وقت کی جرائم کی کہانیاں ہوتی تھیں۔ اس سے مجھے واقعی تجسس ہوا کہ لوگ تشدد کا سہارا کیوں لیتے ہیں۔‘‘ گیٹو کے لیے یہ تجسس عمربھرکا جنون بن گیا۔ آج وہ ایک ماہرِجرمیات اورچنئی میں واقع انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار کرائم پریوینشن اینڈ وکٹم کیئر(پی سی وی سی) کی شریک بانی ہیں۔ پی سی وی سی ان خواتین اورکوئیرافراد (ہم جنس پرستوں) کے لیے متعدد معاون خدمات فراہم کرتا ہے جو باہمی، گھریلو، ڈیٹنگ یا رشتوں میں تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ ایک چھوٹی ہیلپ لائن کے طورپرشروع ہونے والا یہ ادارہ اب ایک مضبوط تنظیم میں تبدیل ہو گیا ہے, جس میں دھوانی کے نام سے ایک گھریلو تشدد کی ہاٹ لائن کے ساتھ ساتھ متعدد امدادی مراکزبھی شامل ہیں۔

پی سی وی سی ایک جامع، صدمے سے آگاہ اورحقوق پرمبنی نقطہ نظرکواپناتا ہے تاکہ خواتین اور کوئیر کمیونٹی کے اراکین کے لیے ایک فعال ماحول پیدا کیا جا سکے۔ اس میں پدرانہ خاندانی ڈھانچے کے اندر مزید مساوی تعاملات کو فعال بنانا اورتشدد کے شکارافراد کو اپنی زندگیوں کی تعمیرنوکے لیے بااختیار بنانا شامل ہے۔ گیٹو بتاتی ہیں ’’لوگوں کی زندگیوں میں جو تبدیلی ہم دیکھتے ہیں جب وہ قانونی طورپرباخبرہوجاتے ہیں یا اپنی داخلی طاقت کو پہچانتے ہیں وہ ناقابل یقین حد تک حوصلہ افزا ہوتا ہے۔ جب میں دیکھتی ہوں کہ متاثرین خود کو’طاقتور‘ محسوس کرتے ہیں اورآزادی حاصل کرتے ہیں تومجھے آگے بڑھنے کی ترغیب ملتی ہے۔‘‘

محض تین بانی ارکان کے ساتھ پی سی وی سی کا سفر2001 میں شروع ہوا، جوفنڈ اکھٹا کرنے، انتظامی معاملات چلانے اورہفتے کے چوبیسوں گھنٹے کال وصول کرنے سے لے کر تشدد کے شکارافراد کی مشاورت اوران کے ساتھ تھانوں اورعدالتوں تک جانے تک ہرچیزکا بندوبست کررہے تھے۔ گیٹوکا کہنا ہے’’اب ہم نے اپنی خدمات کووسیع کیا ہے تاکہ ہنگامی حالات میں مدد پہنچانے سے لے کر طویل مدتی بحالی اور شفایابی کے پروگراموں تک خصوصی مدد جیسی چیزوں کو بھی خدمات کا حصہ بنایا جا سکے۔‘‘

امریکی پروگراموں سے آموزش

گیٹونے 2003 میں امریکی محکمہ خارجہ کے  باوقارپیشہ وارانہ تبادلہ پروگرام معروف بہ انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) کے حصے کے طور پرامریکہ کا سفر کیا۔ اس پروگرام کے تحت امریکہ کے مختصر مدتی دوروں کے ذریعے دنیا بھرسے موجودہ اورابھرتے ہوئے رہنما اس ملک کے بارے میں براہ راست تجربہ حاصل کرتے ہیں اور اپنے متعلقہ شعبوں کے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ دیرپا روابط استوار کرتے ہیں۔

گیٹونے اپنے دورے کے دوران حکومت کے زیر انتظام چلنے والے پروگراموں، خواتین کے لیے پناہ گاہوں، صحت مند رشتوں پر تدریسی پروگراموں، گھریلو تشدد کی عدالتوں اوربیٹررانٹروینشن پروگراموں کے بارے میں جانا۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ہم ہینڈ بک، تربیتی کتابچے، بروشر اور پمفلٹس کے ڈبوں کے ساتھ واپس آئے۔ آج بھی یہ مواد ہماری لائبریری کی زینت بنا ہوا ہے اور عملے، انٹرن، طلبہ اور سماجی کارکنوں کے لیے ضروری وسائل کے طور پر کام کرتا ہے۔‘‘

اس سفرنے گیٹوکوانمول معلومات فراہم کیں کہ امریکہ میں  کس طرح گھریلوتشدد سے نمٹا جاتا ہے اور کس طرح مختلف شعبوں میں متعلقین اپنی کوششوں کو مربوط کرتے ہیں۔ انہوں نے متعدد تنظیموں کے ساتھ  روابط بھی استوار کیے، جن میں سے کچھ  کا وہ آج بھی حوالہ دیتی  ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’پی سی وی سی کو اکثر امریکہ میں رہائش پذیرایسے افراد کے والدین، بہن بھائیوں یا دوستوں کی کالز موصول ہوتی ہیں جو گھریلو تشدد کا شکار بنتے ہیں۔ ہم انہیں ان تنظیموں کے ساتھ رابطہ کرنے کو کہتے ہیں جن کا میں نے دورہ کیا تھا یا دیگر امدادی خدمات کے لیے انہیں دوسری جگہ بھیجتے  ہیں۔‘‘

تشدد کے شکار نوجوانوں  کی مدد کرنا

خواتین اور بچوں کو بدسلوکی والے حالات میں جس تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا مشاہدہ کرنا مشکل ہے، خاص طور پر جب تکلیف ان لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے یعنی ساتھی اور کنبے کے ارکان، جن سے رشتہ محبت اور دیکھ بھال  کرنے والا ہوتا ہے۔ گیٹو نے اس تکلیف سے تعمیری انداز میں نمٹنا سیکھ لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’گذشتہ برسوں کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنے سے ان کی مدد نہیں ہوتی اور آپ تھک  بھی جاتے ہیں۔‘‘ اس کے برعکس وہ حل پر مبنی نقطہ نظر اختیار کرتی ہیں، جو تشدد کے شکار افراد کو باخبر فیصلے کرنے اور دوبارہ اعتماد حاصل کرنے کے لیے بااختیار بناتا ہے۔ گیٹو کہتی ہیں کہ یہ نقطہ نظر انہیں آگے بڑھنے کے لیے توانائی فراہم کرتا ہے۔

گھریلو تشدد زدہ بچوں کی منفرد ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے پی سی وی سی نے اسمائلز پروگرام شروع کیا ہے۔ یہ اقدام بچوں کو صحت مند، تشدد سے پاک رشتوں کے بارے میں سکھاتے ہوئے تعلیمی اور جذباتی مدد فراہم کرتا ہے۔ پی سی وی سی کی ٹیم اسمائلز کے ذریعے مکمل یا جزوی تعلیمی مدد فراہم کرتی ہے جب تک کہ خاندانی صورتحال مستحکم نہ ہو جائے۔ چائلڈ انرچمنٹ پروگرام (سی ای پی) نامی ایک دیگراقدام بچوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ یہ والدین کو مختلف عمر کے بچوں پر گھریلو تشدد کے اثرات کے بارے میں باخبر کرتا ہے اورگھروں میں لچک پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے۔ آئی وی ایل پی کی معرفت گیٹو نے جن اتالیقوں اور تنظیموں سے ملاقات کی تھی، ان کے ساتھ ان کے قریبی رشتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’بہت سے لوگ جن سے میں برسوں پہلے ملی تھی وہ پی سی وی سی  کے دوست اوراطالیق بن گئے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بڑھتے ہوئے دیکھا ہے اورمعنی خیزطریقوں سے مسلسل ہماری حمایت کر رہے ہیں۔‘‘

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

بھارت ایکسپریس۔

Also Read