روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جمعرات 19 دسمبر کو نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کی۔ اس دوران انہوں نے یوکرین جنگ پر سمجھوتہ کرنے کی بات کی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بات چیت کے لیے کوئی پیشگی شرائط نہیں ہیں،
لیکن کسی بھی معاہدے میں یوکرین کے جائز حکام کو شامل ہونا چاہیے۔
اس سے قبل جنوری میں ٹرمپ نے روس اور یوکرین کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت شروع کرنے کی بات کی تھی۔ تب سے یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں کہ ٹرمپ یوکرین کو امن قائم کرنے کے لیے روس کی شرائط ماننے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق ولادیمیر پوتن نے کہا کہ روس صدر ولادیمیر زیلنسکی سمیت کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہے۔ ولادیمیر پوتن نے ایک امریکی نیوز چینل کے نامہ نگار کو بتایا کہ انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کئی سال سے بات نہیں کی، لیکن تنازع پر بات کرنے کے لیے ان سے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے عارضی جنگ بندی پر کیا کہا؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے ان دعوؤں کو مسترد کیا کہ روس کمزور پوزیشن میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد ملک مزید مضبوط ہوا ہے۔ ولادیمیر پوتن نے کہا کہ روس مذاکرات کے لیے تیار ہے، انھوں نے زور دیا کہ کیف کو بھی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ولادیمیر پوتن نے مستقل امن معاہدے کے حق میں عارضی جنگ بندی کے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا۔
اورشینک ہائپرسونک میزائل کے بارے میں بھی بات کی
صحافیوں کو جواب دیتے ہوئے ولادیمیر پوتن نے اورشینک ہائپرسونک میزائل کے بارے میں بھی بات کی، جسے روس پہلے ہی یوکرائن کی ایک فوجی فیکٹری میں استعمال کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یوکرین میں ایک اور لانچ کرنے کے لیے تیار ہیں اور دیکھیں گے کہ کیا مغربی فضائی دفاعی نظام اسے مار گرا سکتا ہے۔ قابل ذکر با ت یہ ہےکہ اس وقت یوکرین کے صدر زیلنسکی نے برسلز میں یورپی کونسل کے اجلاس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ولادیمیر پوتن کے میزائل کے استعمال پر بات کرتے ہوئے پوچھا، “کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ ایک سمجھدار شخص ہے؟”
بھارت ایکسپریس