پاکستان میں مہنگائی ساتویں آسمان کے پار جا چکی ہے ۔ لوگ حکومت کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں۔ وہاں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ آٹا اور روٹی اتنی مہنگی ہے کہ عام آدمی اسے خریدنے کے قابل نہیں رہا۔ کراچی میں ایک دکان چلانے والے عبدالحمید نے بتایا کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ہم اپنے خاندانوں کو بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کر پا رہے لیکن ہمارے لیڈر مزے کر رہے ہیں۔ ہم نے غلط لوگوں کو ووٹ دیا۔ وہ ہماری ضروریات پر توجہ دیے بغیر مزے کر رہے ہیں۔
ایک کلو آٹا 800 روپے میں مل رہا ہے
خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق کراچی میں فی الحال ایک کلو آٹا 800 روپے میں دستیاب ہے۔ پہلے یہ 230 روپے میں دستیاب تھا۔ ایک روٹی کی قیمت 25 روپے تک پہنچ گئی ہے، حالانکہ یہ پاکستانی کرنسی میں ہے، اگر بھارتی کرنسی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پھر بھی ایک کلو آٹے کی قیمت 238 روپے ہے۔چونکہ ہندوستان کا ایک روپیہ تقریباً پاکستان کے 3.45 روپے کے برابر ہے۔
کراچی کے ایک اسکول ٹیچر نے کہا کہ بنیادی چیزیں ہماری دسترس سے باہر ہیں۔ گیس کی مثال لے لیں، وہ ہمیں بیوقوف بناتے رہتے ہیں کہ حکومت ایل پی جی کا انتظام کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک آٹا 230 روپے فی کلو دستیاب تھا، اب اس کی قیمت 800 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ جو شخص روزانہ 500 روپے کماتا ہے وہ اپنے گھر والوں کے کھانے کا انتظام کیسے کرے گا؟
پاکستانی اخبار ڈان کے مطابق اس وقت پاکستان میں زبردست مہنگائی ہے۔ یہاں افراط زر کی شرح 38 فیصد تک بڑھ گئی ہے جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ خوراک کی افراط زر کی شرح بھی 48 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو 2016 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ حکومت پاکستان کے مطابق شہری علاقوں میں ٹماٹر کی قیمت میں 188 فیصد، پیاز کی قیمت میں 84 فیصد، سبزیوں کی قیمتوں میں 55 فیصد، مصالحے کی قیمت میں 49 فیصد، گڑ کی قیمت میں 44 فیصد، چینی کی قیمت میں 37 فیصد، آلو کی قیمت میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال میں آٹے میں 32 فیصد اور گوشت میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں 319 فیصد، بجلی کی قیمتوں میں 73 فیصد، فرنیچر کی قیمتوں میں 22 فیصد اور کتابوں کی قیمتوں میں 34 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں یہ برے دن کیوں آئے، یہ سمجھیں۔
پاکستان میں مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ قرضوں میں اضافہ اور معیشت کی سست رفتاری ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی پاکستان کو قرض دیتے وقت کچھ شرائط رکھی تھیں۔ ان شرائط میں سے ایک سبسڈی کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔ اس شرط کے باعث حکومت پاکستان نے سبسڈی ختم کر دی ہے جس کی وجہ سے اشیائے خوردونوش سے لے کر بنیادی ضروریات تک ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کرنسی بھی ایک سال میں 50 فیصد سے زیادہ کمزور ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے درآمدات مہنگی ہو گئی ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپریل میں ہی ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ ساتھ ہی کئی بڑی ایجنسیوں نے بھی کم جی ڈی پی گروتھ کی پیش گوئی کی ہے۔ عالمی بینک نے کہا تھا کہ معاشی جھٹکا ایک کروڑ لوگوں کو غربت کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ پاکستان کی تقریباً 10 کروڑ آبادی پہلے ہی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔