Bharat Express

Pakistan Election Result 2024: عمران خان ہیں پاکستان عوام کی پہلی پسند، جیل میں بند ہونے کے بعد بھی عوام سے گہرا ناطہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے اب تک جاری کیے گیے قومی اسمبلی   کے مصدقہ نتائج کے مطابق جیتنے والے اراکین میں سے سب سے زیادہ آزاد امیدوار ہیں۔ یہ امیدوار عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں ہوئے 8 فروری کے الیکشن کے نتائج کافی سست رفتار کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ گھنٹوں انتظار کے بعد پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی اپڈیٹ سامنے آرہا ہے۔ الزام تراشی اور جوابی الزام تراشی کا دور بھی چل رہا ہے۔ حالیہ الیکشن نے یہ واضح کردیا کہ پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت اب بھی سب سے زیادہ ہے۔ اب تک سامنے آنے والے نتائج کے مطابق جیتنے والے امیدواروں کی اکثریت پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کی ہے۔ ان نتائج کے بعد یہ بات واضح ہے کہ جو پارٹی بھی اگلی حکومت بنانا چاہے گی، اس کو ان آزاد اراکین کی بڑی تعداد کو ساتھ ملانا پڑے گا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے اب تک جاری کیے گیے قومی اسمبلی   کے مصدقہ نتائج کے مطابق جیتنے والے اراکین میں سے سب سے زیادہ آزاد امیدوار ہیں۔ یہ امیدوار عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ہیں۔ عمران خان کے الیکشن میں حصہ لینے سے متعلق پابندی اور پھر ان کی پارٹی کے انتخابی نشان بلّا کو منسوخ کئے جانے بعد آزاد امیدوار کے طور پر قسمت آزمائی کر رہے تھے۔ دوسرے نمبر پرنواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ رہی ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 30 سیٹوں کے ساتھ تیسری پوزیشن پر رہی  ہے۔

عمران خان کے سخت مخالف اورجمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بری طرح سے ہارگئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار علی امین نے مولانا فضل الرحمن کو 30 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا ہے۔نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی ایک ایک سیٹ پر جیت ملی ہے جبکہ ایک ایک سیٹ سے ہار گئے ہیں۔  نواز شریف اور ان کی فیملی کے لئے راحت کی خبر ہے ان کے بھائی شہباز شریف  اور  بیٹی  مریم نواز  الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔ ابتدائی رجحان میں کافی پیچھے ہونے کے بعد ان کے خاندان کے تمام اراکین جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔  نتائج پر غوروخوض کرنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کی تختہ پلٹ کرنے والے مولانا فضل الرحمن سے لوگ ناراض نظرآئے، جس کے بعد ان کو بری طرح سے ہرا دیا۔

بلاول بھٹوزرداری کو بھی لاہورکی  ایک سیٹ  سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے بعد  پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما اورسابق وزیر شیری رحمان نے کہا کہ لاہور کے جس حلقے سے بلاول بھٹو الیکشن لڑ رہے تھے، اس کا رزلٹ اچانک تبدیل ہوا۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ایپ بند ہوئی تو فوراً الیکشن کمیشن پہنچے، تاہم اندرنہیں جانے دیا گیا۔ شیری رحمان کے مطابق ’بلاول بھٹوکی لیڈ کلیئر تھی اور ہر چینل پر اس کے بارے میں خبر بھی چل چکی تھی۔‘ رہنما پی پی نے کہا کہ ’ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ الیکشن میں تاخیر کا مطلب کیا ہوتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ہمارے جمہوری حق سے محروم کیا گیا۔‘ شیری رحمان نے موبائل سروس کی بندش کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’صبح سے ہی سروس بند کر دی گئی، مجھے تو سکیورٹی کی خراب صورت حال دکھائی نہیں دی۔‘

اب جن  آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے، ان کواسمبلی کا حلف اٹھانے کے بعد تین روز کے اندر کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہو گی اور جس جماعت میں زیادہ آزاد امیدوار جائیں گے اس کے پاس حکومت بنانے کا اختیار ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے نتائج کے مطابق آئندہ بننے والی حکومت کے لیے سب سے زیادہ طاقت اس وقت آزاد اراکین کے پاس ہے اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ دوسری دونوں بڑی جماعتوں کو حکومت بنانے کے لیے ان آزاد امیدواروں میں سے زیادہ سے زیادہ کو ساتھ ملانا ہو گا۔ نواز شریف اور آصف زرداری میں مقابلہ ہو گا کہ وہ کتنی تعداد میں آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا سکتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں آصف علی زرادری کا پلڑا بھاری ہے اور ان کا ماضی کا ریکارڈ بھی بہتر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نواز شریف کا کہنا  ہے کہ پاکستان مسلم لیگ-نواز اکثریت نہ ملنے کی صورت میں اپوزیشن میں بیٹھ سکتی ہے۔ نوازشریف نے اپنے قریبی لوگوں سے کہا ہے کہ اگر انہیں اکثریت لینے میں مشکلات ہوئیں تو وہ اپوزیشن میں بیٹھیں گے کیونکہ ان کی جماعت موجودہ حالات میں بڑا سیاسی بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔‘

 سوال یہ ہے کہ اس بار پاکستان میں وزیراعظم کون بنے گا؟ لندن میں لمبے وقت تک رہنے والے پی ایم ایل-این کے سربراہ نوازشریف کی امیدوں کو بڑا جھٹکا لگتا ہوا نظرآرہا ہے۔ نواز شریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جوڑ توڑ کی حکومت بنی تو وہ وزیراعظم نہیں بننا چاہیں گے۔ ایسے حالات میں کیا ان کے بھائی اور سابق وزیراعظم شہباز شریف کی قسمت کھل سکتی ہے۔ تاہم لیکن۔۔۔ اگراور مگر کو درکنار کرکے جیل میں بند عمران خان پورا گیم پلٹ سکتے ہیں۔ تاہم خبر ہے کہ عمران خان کو نقصان پہنچانے کے لئے فوج کا بھی پلان تیار ہے۔ میڈیا کے مطابق، فوج کا پلان ہے کہ عمران خان کے حمایت یافتہ جیتے ہوئے آزاد امیدواروں کا پالا بدلوایا جائے اور انہیں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ-نواز میں شامل کرانا ہے۔ لیکن یہ سوال اب بھی برقرارہے کہ پاکستان کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا۔ لیکن نتائج سے اتنی بات تو طے ہوگئی ہے کہ عمران خان گرچہ جیل میں بند ہوں اور ان کے خلاف ہرحربے اپنائے جا رہے ہوں، لیکن پاکستانی عوام کے دلوں میں آج بھی عمران خان ہی بستے ہیں۔

بھارت ایکسپریس۔