اعتماد کے ساتھ امریکی کیمپس میں اپنی جگہ بنانا
نتاشاملاس
امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا ایک دلچسپ اور اطمینان بخش تجربہ ہو سکتا ہے۔ تاہم ابتداً دوسرے ملک میں منتقل ہونا بھی ایک مشکل چیز ثابت ہو سکتی ہے۔ طلبہ اپنے کیمپس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات یکجا کر سکتے ہیں اور دُور رس روابط بنا سکتے ہیں تاکہ اس تبدیلی کے دوران پیش آنے والی ہر دشواری سے بخوبی نبرد آزما ہو سکیں۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں مواصلاتی انتظام کی گریجویٹ طالبہ مانسی چندو کے لیے کیمپس کا وسیع و عریض رقبہ ایک مغلوب کردینے والی چیز تھی۔ وہ بتاتی ہیں ’’ممبئی میں زیادہ تر کیمپس جگہ کی کمی کی وجہ سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہاں (کیلیفورنیا میں) یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ کیمپس بڑا ہونے کی وجہ سے مجھے کلاس میں پہنچنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ بہرحال یہ ایک مغلوب کردینے والا تجربہ تھا۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں ’’یہاں تک کہ پہلے دو ہفتوں کے دوران ہونے والی سرگرمیوں کی تعداد، خواہ وہ نئے کلب میں شامل ہونے یا مختلف ثقافتی اور سماجی ملاقاتوں کے لیے ہم خیال لوگوں کے ساتھ جمع ہونے کی بات ہو، یہ تمام چیزیں بھی یکساں طور پر مغلوب کردینے والی تھیں ۔‘‘
اس سے نمٹنے کی ایک حکمت عملی یہ ہے کہ نئے کیمپس، شہر، تعلیمی نصاب اور ثقافت سے خود کو سیمیناروں اور پریزنٹیشن کے ذریعے واقف کروائیں جو ایجوکیشن یو ایس اے کے مشیروں اور ہندوستان میں ملک گیر پیمانے پر موجود امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں کے سابق طلبہ کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ دشواریوں کو کم کرنے اور طلبہ کو نئے ماحول سے مانوس کرنے کے لیے بہتر طور پر تیار کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
مختلف ثقافتی معمولات سے شناسائی
پرڈیو یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے ایک انڈرگریجویٹ طالب علم رودرانیل سنہا کے لیے کھانے پینے کے اطوار کے تعلق سے ثقافتی فرق حیران کن تھا۔ وہ بتاتے ہیں ’’حالاں کہ مجھے توقع تھی کہ کھانا مختلف ہوگا لیکن ہر بار کھانے کے لیے باہر نکلنے کا خیال پریشان کن تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ صرف کالج کی زندگی ہے، جب تک کہ آپ اپارٹمنٹ میں نہیں رہتے۔ ایک مختلف غذا کی عادت ڈالنا یقینی طور پر سب سے مشکل چیز تھی۔‘‘
چہل قدمی اور ٹریفک قوانین جیسی روزمرہ کی سرگرمیوں کی عادت ڈالنے میں بھی کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سنہا کہتے ہیں کہ وہ فٹ پاتھوں پر لوگوں سے ٹکراتے رہے، لیکن اس کی وجہ نہیں جان سکے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’بعد ازاں پتہ چلا، چونکہ امریکہ میں لوگ دائیں طرف گاڑی چلاتے ہیں، اس لیے پیدل چلنے والے بھی فٹ پاتھ کے دائیں طرف چلتے ہیں۔ فارن ہائٹ پیمانہ اور امریکی فٹ بال بھی ایسی چیزیں تھیں جن کا میں پہلے عادی نہیں تھا۔‘‘
کتابیں اور اس سے بعید
بین الاقوامی طلبہ کو پڑھائی کے پہلے مہینے میں سیکھنے کے سخت مراحل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں نئے کلاس روم اور ہم جماعت افراد کے ساتھ ہم آہنگی اور بالکل مختلف تعلیمی نظام شامل ہیں۔ سنہا بتاتے ہیں ’’تعلیمی توقعات کو سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اکثر کورسس ہوم ورک جمع کرانے کے لیے مختلف پلیٹ فارمس کا استعمال کرتے ہیں اور کچھ حاضری لینے کے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ کالج کے پورے تجربے کے دوران آپ کو نئے پلیٹ فارمس کا استعمال کرنے کو سیکھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ میرے خیال میں پہلے مہینے کے دوران یہ سب سے مشکل ہے کیونکہ یہ تصور خود آپ کے لیے تھوڑا نیا ہے۔‘‘
چندو کے لیے اپنا پرچہ لکھنا سب سے مشکل کام تھا۔ وہ کہتی ہیں ’’میرے پروگرام میں اے پی اے فارمیٹ میں تعلیمی پرچہ لکھنے کا التزام تھا جو کہ میرے لیے نیا تھا۔ اس کے لیے کئی بار کوششیں کرنی پڑیں۔ اس پر گرفت حاصل کرنے کے لیے کئی منفی اور مثبت تجربہ سے گزرنا پڑا، لیکن آخر کاراس میں سدھار آ جاتا ہے۔‘‘
بین الاقوامی طلبہ کو رہنے کے لیے ایک ایسی جگہ درکار ہوتی ہے جو پڑھائی کرنے اور دوست بنانے کے لیے موزوں ہو۔ چندو کہتی ہیں ’’کلاس کے ساتھ ساتھ اپنے کمرے اور گھر کو ترتیب دینا بھی ایک دشوار گزار کام ہوسکتا ہے۔ اپنے بستر، صوفے اور میز کو خود منگوانے اور ترتیب دینے سے لے کر انٹرنیٹ، پانی، بجلی اور گیس جیسی سہولتوں کا نظم بھی مشکل ہوسکتا ہے۔ بحیثیت ایک بین الاقوامی طالب علم، جس کے پاس سوشل سکوریٹی نمبر نہیں ہے، آپ کے لیے کال پر ان خدمات کے لیے ویریفکیشن کرانا ناممکن ہے۔ ایسے میں جب کہ کلاس بھی چل رہی ہوں ، مذکورہ چیزوں کی ترتیب کا طریقہ تلاش کرنا بھی یکساں طور پر مشکل ہوتا ہے۔ تاہم آخرکار سب کام ہو ہی جاتے ہیں۔‘‘
روابط قائم کرنا
رابطہ قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی طلبہ کو نئے ملک میں دوست بنانے کی خاطر ذاتی اور سماجی رکاوٹوں کو بھی دور کرنا پڑ سکتا ہے۔ سنہا کہتے ہیں ’’اگرچہ واقفیت حاصل کرنے کا ہفتہ نئے لوگوں سے ملنے کے بارے میں کافی مددگار ہے۔ آپ کو جلد ہی احساس ہو جاتا ہے کہ دوست بنانے کے لیے آپ کو ایک فعال کوشش کرنی چاہیے۔ کچھ لوگوں کے لیے ایک دوست گروپ تلاش کرنے اور ایک صحت مند سماجی زندگی کی تشکیل میں ان کا پورا سال لگ سکتا ہے۔‘‘
طلبہ کیمپس میں موجود دیگر ہندوستانی طلبہ کلبوں اور واٹس ایپ گروپوں سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ چندو نے یونیورسٹی کے فیس بک گروپ کے ذریعے اپنے موجودہ کمرے کے ساتھیوں کو تلاش کیا اور یونیورسٹی کے ایک ہندوستانی طلبہ کے گروپ میں شمولیت اختیار کی جہاں ممبران ممکنہ سب لیز، فرنیچر کی فروخت اور موبائل پلانز کے کوڈس کے بارے میں معلومات شیئر کرتے ہیں۔
سنہا کہتے ہیں ’’اپنے آبائی ملک سے دوستوں کو تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ وہ آپ کے مقامی سیاق و سباق کو سمجھتے ہیں کہ آپ کہاں اور کیسے پروان چڑھے۔‘‘ ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے طلبہ کے ساتھ دوستی کرنا بھی ایک عالمی یونیورسٹی کے فوائد کا تجربہ کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
بے صبری نہ کریں
پہلے مہینے میں ان تبدیلیوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹنا ناممکن نہیں ہے اور بہت سے بین الاقوامی طلبہ تعلیمی اور ذاتی طور پر ترقی کرتے ہیں۔ سنہا کہتے ہیں ’’میرا مشورہ ہے کہ کریڈٹس کی تعداد کے لحاظ سے ہلکا سمسٹر لیا جائے۔ ایک وقت آئے گا کہ جب تعلیمی طور پرآپ بہت زور لگائیں گے لیکن یہ پہلا سمسٹر نہیں ہو گا۔ اسے آسان بنائیں، اپنے ماحول سے لطف اندوز ہونا سیکھیں اور اپنے لیے ایسی زندگی کے خد و خال نمایاں کریں جس کو گزارنے سےآپ مطمئن ہوں۔‘‘
چندو خود کو صورت حال کے مطابق ڈھال لینے کے جذبہ کی تائید کرتی ہیں لیکن اسے اس طور پر ہونا چاہیے کہ یہ عمل خود تعلیمی تجربے کا ایک اہم حصہ بن جائے۔ وہ کہتی ہیں ’’کھلا ذہن رکھیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے بات کریں۔ غلط بات کہنے سے مت گھبرائیں، ہر کوئی سیکھ رہا ہے اور آپ کی طرح ایک طالب علم ہے۔ آپ کو بالآخر اپنی جگہ مل ہی جائے گی۔ ایسا اس لیے کہ ان کے حصول کے لیے آپ کے اختیار میں بہت سارے وسائل جو ہوں گے۔‘‘
بھارت ایکسپریس۔
بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی