Bharat Express

Libya suspends foreign minister : اسرائیلی رہنما سے بات کرنے کے خلاف لیبیا میں زبردست عوامی احتجاج، وزیرخارجہ کو کرنا پڑا برخاست

لیبیا کے وزیرخارجہ کا اسرائیل کے ساتھ بات کرنا اس قدر مہنگا ثابت ہوا کہ ان کو اپنی کرسی سے فارغ کردیا گیا ۔ عوامی احتجاج اور دباو میں حکومت نے آناً فاناً وزیرخارجہ کو برخاست کرتے ہوئے ملک سے باہر جانے پر بھی پابندی لگادی ۔لیبیا کی داخلی سلامتی سروس نے اعلان کیا ہے کہ وزیر خارجہ نجلا المنگوش کو سفر سے ممنوعہ لوگوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے

لیبیا کے وزیرخارجہ کا اسرائیل کے ساتھ بات کرنا اس قدر مہنگا ثابت ہوا کہ ان کو اپنی کرسی سے فارغ کردیا گیا ۔ عوامی احتجاج اور دباو میں حکومت نے آناً فاناً وزیرخارجہ کو برخاست کرتے ہوئے ملک سے باہر جانے پر بھی پابندی لگادی ۔لیبیا کی داخلی سلامتی سروس نے اعلان کیا ہے کہ وزیر خارجہ نجلا المنگوش کو سفر سے ممنوعہ لوگوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے اور ان اطلاعات کی تردید کی گئی ہے کہ اس نے ان کی روانگی کی اجازت دی تھی یا اس میں سہولت فراہم کی تھی۔لیبیا کے دارالحکومت اور دیگر صوبوں میں سینکڑوں لوگوں کے مظاہرے کے چند گھنٹوں کے بعد، یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ وزیرموصوف ملک چھوڑ چکے ہیں۔لیبیا کی عوام اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کے اس اعلان پر برہم تھے کہ انھوں نے المنگوش سے گزشتہ ہفتے روم میں ملاقات کی تھی۔لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ نے المنگوش کی “عارضی معطلی” کا اعلان کرتے ہوئے ان کی جگہ عبوری وزیر خارجہ کے طور پر موجودہ نوجوان وزیر فتح اللہ الزانی کو تعینات کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ المنگوش کو “انتظامی تحقیقات” کا نشانہ بنایا جائے گا۔

اس اعلان نے اسرائیلیوں کو برہم کردیا

یہ سیاسی تنازع اتوار کو اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ ہفتے اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی کی میزبانی میں ملاقات کی تھی۔اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نےایک بیان میں کہا کہ ’’میں نے لیبیائی وزیر خارجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے بڑی صلاحیتوں کے بارے میں بات کی،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان اس طرح کا پہلا سفارتی اقدام ہے۔حالانکہ اسرائیل میں اس خبر کو پذیرائی نہیں ملی، مبصرین نے کہا کہ کوہن کا طرز عمل قابل قبول سفارتی عمل کی خلاف ورزی ہے۔اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق کوہن کے اعلان سے اسرائیل کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔حالانکہ لیبیا کی وزارت خارجہ نے کہا کہ المنگوش نے اسرائیل کی نمائندگی کرنے والے کسی بھی فریق سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

وزارت نے ایک بیان میں کہا، “روم میں جو کچھ ہوا وہ ایک موقع اور غیر سرکاری تھا، ان کے اطالوی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے دوران، جس میں کوئی بات چیت، معاہدہ یا مشاورت شامل نہیں تھی، یہ واقعہ پیش آیا۔اس نے اسرائیل پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ “اس واقعے” کو “ملاقات یا بات چیت” کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔شمالی افریقی ملک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ لیبیا کے 1957 کے قانون کے تحت اسرائیل کے ساتھ معاملہ کرنے کی سزا نو سال تک قید ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق لیبیا کے ایک نامعلوم سرکاری اہلکار نے بتایا کہ لیبیا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر سب سے پہلے دبیبہ اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کے ساتھ ملاقات میں تبادلہ خیال کیا گیا جنہوں نے جنوری میں لیبیا کے دارالحکومت کا دورہ کیا تھا۔اہلکار کے مطابق، برنز نے تجویز پیش کی کہ دبیبہ کی حکومت، جسے لیبیا کی بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، ان چار عرب ممالک کے گروپ میں شامل ہو جائے جنہوں نے 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا تھا۔ عہدیدار نے بتایا کہ لیبیا کے وزیر اعظم نے ابتدائی معاہدہ کیا تھا لیکن وہ ایک ایسے ملک میں عوامی ردعمل کے بارے میں فکر مند تھے جو فلسطینی کاز کی حمایت کے لیے جانا جاتا ہے۔

پیر کے روز، ایک اسرائیلی اہلکار نے بتایا کہ المنگوش اور کوہن کے درمیان لیبیا میں “اعلیٰ ترین سطحوں” پر ہونے والی ملاقات میں پیشگی اتفاق کیا گیا تھا اور یہ ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہی۔اس کے علاوہ، اسرائیل کے سابق وزیر خارجہ اور وزیر اعظم یائر لاپڈ نے کوہن کو اس حساس اجلاس کے ساتھ عوامی سطح پر جانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔لیپد نے ایک بیان میں کہا کہ دنیا کے ممالک آج صبح اسرائیلی اور لیبیا کے وزیر خارجہ کی ملاقات کے غیر ذمہ دارانہ افشاء کو دیکھ رہے ہیں اور خود سے پوچھ رہے ہیں کہ  کیا اس ملک کے ساتھ خارجہ تعلقات کو سنبھالنا ممکن ہے؟ کیا اس ملک پر بھروسہ کرنا ممکن ہے؟ اسرائیل نے حالیہ برسوں میں کچھ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا ہے جو کہ ابراہم معاہدے کے نام سے مشہور امریکی حمایت یافتہ معاہدوں کے حصے ہیں۔تاہم وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت کو مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور مقبوضہ علاقے میں یہودی بستیوں کی توسیع کی حمایت کرنے پر عرب ریاستوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

رات بھر احتجاج

سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز میں اتوار کی رات طرابلس میں وزارت خارجہ کی عمارت کے سامنے مظاہرے ہوئے، جن میں المنگوش کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔ کچھ مظاہرین نے طرابلس میں ان کی رہائش گاہ کو آگ لگاتے ہوئے دبیبہ کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا۔ الزاویہ میں مظاہرین اس اجلاس کی وجہ سے پوری حکومت کو گرانے کا مطالبہ کر رہے تھے، اور لوگ تاجورہ اور سوغ الجمعہ میں سڑکیں بند کر رہے تھے اور ٹائر جلا رہے تھے۔ مصراتہ میں بھی  مظاہرے دیکھے گئے ہیں ۔عوامی احتجاج کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے  وزیرخارجہ کو معطل کردیا ہے تاکہ عوام کو پرسکون کیا جاسکے۔

بھارت ایکسپریس۔