ایرانی حکومت نے مورالٹی پولیس کو ہٹانے کا کیا اعلان ، احتجاج جاری
میڈیا رپورٹس کے مطابق، ملک کے اٹارنی جنرل نے مطلع کیا ہے کہ ایران کی اخلاقی پولیس، جسے ملک کے اسلامی لباس کوڈ کو نافذ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کو ختم کیا جا رہا ہے۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق، اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری کے تبصرے، جن کی ابھی تک دیگر ایجنسیوں نے تصدیق نہیں کی، یہ بیان اتوار کو ایک تقریب میں دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں ایک نوجوان خاتون کی حراست میں ہلاکت پر کئی مہینوں سے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ مہسا امینی کو مورالٹی پولیس نے سر ڈھانپنے کے سخت قوانین کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا تھا۔ منتظری ایک مذہبی کانفرنس میں تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اخلاقی پولیس کو ختم کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اخلاقیات پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں اور جہاں سے یہ قائم ہوئی تھی وہاں سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا کنٹرول وزارت داخلہ کے پاس ہے نہ کہ عدلیہ کے پاس ۔
بی بی سی کی خبر کے مطابق، ہفتے کے روز، منتظری نے ایرانی پارلیمنٹ کو یہ بھی بتایا کہ ایک قانون پر غور کیا جائے گا جس میں خواتین کو حجاب پہننے کی ضرورت ہے۔
اخلاقی پولیس کو ختم کر بھی دیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دہائیوں پرانے قانون کو بدل دیا جائے گا۔ مورالٹی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے تین دن بعد 16 ستمبر کو 22 سالہ امینی کی حراست میں موت کے بعد سے تہران میں خواتین کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کو حکام نے فسادات کا نام دیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، لڑکی کی موت بدامنی کے لیے ایک وجہ تھی، لیکن غربت، بے روزگاری، عدم مساوات، ناانصافی اور بدعنوانی کی وجہ سے عدم اطمینان بھی ہوا ہے۔ اخلاقی پولیس کے خاتمے کی تصدیق ہو جائے تو یہ رعایت تو ہو گی لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ احتجاج کو روکنے کے لیے کافی ہو گی۔
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران میں ‘اخلاقی پولیس’ کی مختلف شکلیں موجود ہیں، لیکن تازہ ترین ورژن، جسے رسمی طور پر گشت ارشاد کے نام سے جانا جاتا ہے، اس وقت ایران کے اسلامی ضابطہ اخلاق کو نافذ کرنے والی واحد پولیس فورس ہے۔
بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے ڈریس کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے 2006 میں گشت شروع کیا، جو خواتین کو شارٹس، پھٹی ہوئی جینز اور دیگر غیر مہذب لباس پہننے سے منع کرتا ہے۔