Bharat Express

Female engineer in space expedition: خلائی مہم جو خاتون انجینئر

اس مضمون میں ہندوستانی ۔امریکی ہوابازی انجینئر سواتی موہن امریکی محکمہ خارجہ کے کفالت یافتہ دورہ ہند کے دوران مریخ پر زندگی اور ’ پرسیورینس رووَر‘ کے بارےمیں بتا رہی ہیں۔

تحریر :۔ کریتیکا شرما

خلائی تحقیق کے  شعبے  میں امریکہ اور ہندوستان کے رشتوں  کی جڑیں انتہائی گہری ہیں جو  عسکری شراکت داری اور سفارتی اقدامات سے پرے  ہیں۔ دونوں ممالک ایک مضبوط انسانی بندھن  میں بندھے ہوئے ہیں جس کی مثال وہ ہندوستانی۔ امریکی ہیں جنہوں نے امریکی خلائی ادارے ناسا میں کریئر سازی  کا انتخاب کیا ہے۔

ہند۔ امریکی  خلائی انجینئر سواتی موہن کی ٹیم نے  ۲۰۲۱ء میں ’پرسیورینس رووَر‘ کو مریخ پر کامیابی کے ساتھ  اتارا تھا۔ موہن نے ۲۰۲۴ء کے اوائل میں نئی دہلی، کولکاتہ، چنئی اور پُڈو چیری کا دورہ کیا تھا۔ دورے کا مقصداس ٹی ایم ای شعبہ جات اور خلائی تحقیق کے شعبوں  میں خواتین کی موجودگی سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کے کفالت یافتہ  پروگراموں میں شرکت کرنا تھا۔ موہن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے تبصرہ کیا تھا’’ ہند نژاد امریکی ملک پر چھا گئے  ہیں۔‘‘ اس سے امریکہ میں ہند۔ امریکیوں کی دست رس کی نشاندہی ہوتی ہے۔

موہن نے ’پرسیورینس رووَر ‘ کو مریخ پر پہنچانے کے لیے درکار رہنمائی، اس کی سمت شناسی اور اس پر قابو رکھنے سے متعلق کاموں کی قیادت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سواتیبتاتی ہیں ’’رووَر کا مشن مریخ پر ماضی کی زندگی کے آثار تلاش کرنا ہے۔ ہماری ٹیم کا کام اس مہم کی ’آنکھوں اور کانوں‘ کو ڈیزائن کرنا تھا۔ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ’ پرسیورینس رووَر‘  یہ پتہ لگا سکے کہ وہ کہاں ہے، اسے کہاں جانا ہے اور وہاں کیسے  پہنچنا ہے۔‘‘

موہن مزید بتاتی ہیں  کہ اس پروجیکٹ میں تقریباً سات مہینے لگےاور قریب قریب ۴۸ کروڑ کیلو میٹر کا سفر طے کرکے ’رووَر‘ ۱۸ فروری ۲۰۲۱ءکوکامیابی کے ساتھ مریخ پر اترا۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’مریخ پر اترنے کے بعد سے’پرسیورینس رووَر‘  نے جزیرو کریٹر (لینڈنگ کے مقام) کے گرد چکر لگا کر ایسے نمونے جمع کیے جو اس سوال کا جواب دینے میں اہم ثابت  ہو سکتے ہیں کہ کیا  کبھی مریخ پر زندگی تھی۔‘‘

ناسا اور ای ایس اے ( یوروپین اسپیس ایجنسی) اب تفصیلی مطالعہ کے لیے مریخ کے مواد کے پہلے نمونوں کو زمین پر واپس لانے کے طریقوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مریخ پر’پرسیورینس رووَر ‘ کا بھیجا جانا اس بین الاقوامی، بین سیارہ  جاتی  مہم کا پہلا مرحلہ تھا۔

رووَر وِہسپَر

موہن نے پرسیورنس پروجیکٹ کے داخل ہونے ،وہاں کی فضا میں اترنے ہونے  اور مریخ پر اترنے کے  مشن کے مبصر کے طور پر مشن کی تکنیکی معلومات  کی ترسیل حقیقی وقت میں عام آدمی کی زبان میں  کی۔ وہ اُن لمحات کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’میں ہر اس چیز پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہی تھی جوکامیاب لینڈنگ  کے لیے ضروری تھی۔ اس لیے میں ٹیم کے باقی اراکین کی باتوں کو بغور سن رہی تھی۔ رووَر کے اترنے اور مریخ کی سطح دکھانے والی پہلی تصویر موصول ہونے کے بعد ہی بالآخر  ہمیں پتہ چلا کہ ہمارا کام ہو گیا ہے۔ ہم کامیابی کے ساتھ مریخ پر اتر چکے تھے۔‘‘

موہن  کے نزدیک سب سے بڑا تحفہان کی محنت کا ثمرہ ملنا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’آپریشن لیڈ ہونے کا دلچسپ ترین حصہ مشن کنٹرول میں کام کرنا اور خلائی جہاز کو خلا میں کام کرتے دیکھنا تھا۔ میں نے خلائی جہاز کی منصوبہ بندی، ڈیزائن اور تعمیر میں کئی سال گزارے۔ اسے خلا میں توقع کے مطابق کام کرتے دیکھنا بہت اطمینان بخش  تھا۔‘‘

خلائی کیمپ سے ناسا تک

سواتی کا کہنا ہے کہ خلا میں ان کی دلچسپی اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے  ٹیلی ویژن شو’’اسٹار ٹریک: دی نیکسٹ جنریشن‘‘کی ایک قسط دیکھی۔ مشہور امریکی سائنس فکشن شو (اسٹار ٹریک: دی نیکسٹ جنریشن) کو اچانک دیکھنے سے لے کر ’پرسیورینس رووَر ‘پروجیکٹ کی قیادت تکموہن کا سفر سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپناکریئر بنانے کی منصوبہ بندی کرنے والی  نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے لیے ایک تحریک ہے۔

موہن  نے ایک چھوٹی بچی  کے طور پر سیّاروں، ستاروں کی تشکیل اور بگ بینگ تھیوری کے بارے میں  بکثرت پڑھا۔ ۱۱ ویں جماعت میں انہوں نے خلاکے شعبے میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کی اور اسپیس کیمپ میں ایرو اسپیس انجینئرنگ کے پیشوں کی فہرست کے بارے میں جانا اور بالآخرناسا میں کریئر کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے مختلف انٹرنشپ کے ذریعے ناسا کے مختلف شعبوں کا پتہ لگایا، لیکن بالآخر بین سیّارہ جاتی جستجو پر توجہ مرکوز کرنے والے جیٹ پروپلشن لیباریٹری (جے پی ایل) کو گھر جیسا محسوس کیا۔ جے پی ایل  نے خلا کے تئیں میرے پیار کو دریافت کے اس پہلو کے ساتھ جوڑ دیا جس کی طرف میں پہلی بار اس وقت متوجہ ہوئی تھی جب میں نے ایک بچی کے طور پر ’اسٹار ٹریک‘ دیکھا تھا۔ جے پی ایل میں شامل ہونے کے بعد سےمجھے چاند، مریخ، زحل اور سیارچوں(ایسٹرائڈس) کی دریافت کرنے والیمشینوں پر کام کرنے کا موقع ملا ہے۔‘‘

آگے کا راستہ

سواتی کا کہنا ہے کہ ’پرسیورینس رووَر ‘ نے مریخ پر مستقبل کے مشنوں کے امکان کو ظاہر کیا ہے۔  وہ کہتی ہیں ’’دو مخصوص مثالیں ’موکسی‘ اور ’انجنیوٹی  ‘ ہیں۔ موکسی ایک ایسا آلہ ہے جو مریخ کے ماحول سے آکسیجن بناتا ہے۔ یہ مریخ پر حتمی انسانی مشن کے لیے اہم ہے۔ وہیں انجنیوٹی ایک ہیلی کاپٹر ہے جو زمین سے باہر پرواز کرنے والا پہلا ہیلی کاپٹرہے۔ مریخ پر ہیلی کاپٹر کا مظاہرہ سیّاروں کی تلاش کا ایک بالکل نیا در وا کرتا ہے جو سائنسی مہمات کی ایک نئی کڑی کے لیے راستہ ہموار کر سکتا ہے۔‘‘

موہن مریخ سے نمونے کی واپسی کے پروگرام پر بھی کام کر رہی  ہیں، جو مریخ کی سطح سے نمونے زمین پر واپس لانے کا ایک مجوزہ مشن ہے۔ وہ بتاتی ہیں ’’حالاں کہ  پرسیورینس مریخ کے نمونے کی واپسی کی پہل  کا پہلا مرحلہ ہے، ہم اگلے مرحلے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔اگلا مرحلہ ایک ایسے راکٹ کو مریخ پر اتارنے  کا ہے جو مریخ کی سطح سے نمونےلانے کے قابل ہو۔ میں مریخ کے لانچ سسٹم پر کام کر رہی  ہوں، جو امید ہے کہ کسی دوسرے سیّارےکی سطح سے داغا جانے والا پہلا راکٹ ہو گا جو اپنے ساتھ پرسیورینس کے ذریعہ جمع کیے گئے نمونے لے کر جائے گا۔‘‘

ان لوگوں کے بارے میں کیا جوموہن  کی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنا کریئر بنانا چاہتے ہیں؟ موہن اس بارے میں  صلاح دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ اعتماد پیدا کریں، اپنے لیے وکالت کریں، لوگوں کو بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور دکھائیں کہ آپ اسے حاصل کرنے کے اہل ہیں۔وہ مزید کہتی ہیں ’’سب سے بڑھ کر، کوشش کرتے رہیں۔ ایسے کئی راستے ہیں جو ایک ہی ہدف تک لے جا سکتے ہیں۔  اگر ہم چلنا جاری رکھیں گے تو ایک نہ ایک دن منزل پر پہنچ ہی جائیں گے۔‘‘

بشکریہ اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

 

بھارت ایکسپریس۔