تحریر۔ چاروی اروڑا
ہندوستان کا دورہ کرنے والی امریکی مقررنینسی وانگ مصنوعی ذہانت، جدّت طرازی اور خواتین کوٹیکنالوجی کی دنیا میں ان کا جی چاہا کردار ادا کرنے میں مدد سے متعلق اپنے کام کے بارے میں بات کررہی ہیں۔
نینسی وانگ عالمی سطح کی غیر منافع بخش ’تنظیم ایڈوانسنگ ویمن اِن ٹیک ‘(اے ڈبلیو آئی ٹی) کی بانی اور بورڈ چیئر ہیں۔ اس تنظیم نے دنیا بھر میں کورسیرا کے ہزاروں طلبہ کو اس بات سے آگاہ کیا ہے اور رہنمائی کی ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں وہ اپنا پہلا یا اگلا قائدانہ کردار کیسےادا کر سکتے ہیں۔ وانگ ایمیزون ویب سروسس میں پروڈکٹ اور انجنیئرنگ کی ڈائریکٹر اور جنرل منیجر کے طور پر اپنیخدمات انجام دے چکی ہیں۔
وانگ اے ڈبلیو آئی ٹی کے ذریعے مزید خواتین کو تکنیکی رول میں آگے بڑھانے کے لیے پُرجوش ہیں۔ اے ڈبلیو آئی ٹی، بی ٹو بی کمپنیوں میں مصنوعات سازی اور انجنیئرنگ کے شعبوں میں خواتین کی مدد کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں ۔ انہوں نے کورسیرا پر اے ڈبلیو آئی ٹی کے پروڈکٹ مینجمنٹ اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کورسس کے ذریعے ۴۰ ہزار خواتین کو تربیت فراہم کی ہے۔ وانگ نےہندوستان میں دو ہفتے گزارے اور اس دورانچنئی، بنگلورو، جے پور، نئی دہلی اور حیدرآباد میں دانشورانہ املاک (آئی پی) پر مبنی جدّت طرازی اور خواتین کی کاروباری صلاحیت (وومن انٹرپرینرشپ) پربات کی۔
ہندوستان میں اپنے قیام کے دورانہوں نے نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر میں قائم نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب میں ایک ماسٹر کلاس سے خطاب کیا ۔
اس کے شرکاءمیں خاتون کاروباری پیشہ وروں ، کاروباری پیشہ وری اور املاک دانش قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات، اسٹارٹ اپس، انکیوبیٹرس اور آئی پی قوانین پر کام کرنے والے پیشہ ور افراد شامل تھے۔ پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے بعض اقتباسات:
ہمیں اے ڈبلیو آئی ٹی کے بارے میں بتائیں اور یہ کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو قائدانہ کردار میں مدد کرنے کے لیے آپ کس طرح کام کرتی ہیں؟
اے ڈبلیو آئی ٹی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جس کی بنیاد میں نے ۲۰۱۶ء میں اُس وقت رکھی تھی جب میں گوگل میں پروڈکٹ مینیجرتھی۔ میرے ساتھ ایک بہت ہی قابل مینیجر اور زبردست اعانتی عملہ تھا لیکن اس عملے میں سارے مرد تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں بہت زیادہ خواتین کام نہیں کرتی تھیں۔لہٰذا، زیادہ سے زیادہ خواتین کو قائدانہ رول میں لانے کایہ میراذاتی مشن تھا۔
آپ کا کام انجنیئرنگ سے لے کر مشورہ دینے اور سرمایہ کاری تک بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ آپ کے خیال میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والی ٹیکنالوجیوں کا جدّت طرازی اور تخلیقی صلاحیتوں پر کیا اثر پڑتا ہے؟
میں مصنوعی ذہانت، خاص طور پر’ کوپائلٹس‘(مائیکروسافٹ کو پائلٹ ، مائیکروسافٹ کے اے آئی کمپینین کی جانب اشارہ کرتا ہے جو مائیکروسافٹ کے ایپلیکشن بشمول مائیکروسافٹ ۳۶۵، وِنڈوز الیون، ایج اور بِنگ وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے) کے استعمال کے بارے میں کافی پُرجوش ہوں۔ ڈیویلپرسجنریٹیو-اے آئی (جین اے آئی) ٹیکنالوجیزکا استعمال کوڈ لکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ تاہم ایمیزون کے پاس اپنا پروڈکٹ ہے جسے ’کوڈ وہسپر‘کہا جاتا ہے۔ بیرونی طور پر’ گِٹ ہب‘ کوپائلٹ بھی ہے جس کا استعمال تجارتی طور پر کیا جاتا ہے۔ میں اس کے بارے میں پُرجوش ہوں کیونکہ یہ جدّت طرازی کے سلسلے کو مختصر کرتا ہے اور آپ کی مؤثر طریقے سے تیزرفتار جدّت طرازی میں مدد کرتا ہے۔ صنعت کی دنیا میں جین اے آئی کے لیے بہت سی دیگر ایپلی کیشنس موجود ہیں جیسے طبّی تشخیص، تیل اور گیس ریفائننگ، مالیاتی خدمات، تجارتی فیصلے یا لین دین کے فیصلےوغیرہ۔ اگر ہم اپنی فیصلہ سازی کو بہتر بنانے، رفتار بڑھانے، درستگی کو بڑھانے کے لیے جین اے آئی کا مناسب فائدہ اٹھا سکیں تو اس کے تئیں میں کافی پُرجوش ہوں۔
کیا کوئی اہم رجحان یا حکمت عملی اوراس طرح کےطریقے ہیں جو آپ کے خیال میںمصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹائزیشن کی لہر کو مہمیز کررہے ہیں؟
جب میں نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں شمولیت اختیار کی تو میرے پہلے منصوبوں میں سے ایک۲۰۱۱ءمیں ہیلتھ ڈیٹا ڈاٹ کام کو تیار کرنا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ہمارے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک بہت سارے اعداد و شمار کا ہونا تھا۔ خواہ وہ تحقیقی اعداد و شمار ہوں، مریضوں کے متعلق اعداد و شمار، دواؤں کے تجرباتی اورآزمائشی اعداد و شمار ہوں، یہ سارے کاغذ پر ہی لکھے ہوتےتھے۔ مجھے یاد ہے کہ او سی آر (آپٹیکل کیریکٹر ریکگنیشن) کو چلانے کے لیے ہم لوگوں کو کتنا کام کرنا پڑتا تھا۔ کاغذوں کو ڈیجیٹائز کرنا، اعداد و شمار کو آسان رسائی والے ڈیٹا بیس میں یکجا کرنا ایک زبردست کوشش تھی۔ یہی وہ بڑا کام تھا جس کی وجہ سے ہیلتھ ڈیٹا ڈاٹ کام کو لانچ کرنے میں وقت لگا۔۲۰۲۰ء کی دہائی میں اگر آپ دیکھیں تو آپ کو گوگل ٹرانسلیٹ جیسی سہولتیں ملیںجہاں آپ متن ڈال سکتے ہیں اور یہ آپ کو آپ کی مادری زبان میں ترجمہ مہیا کرے گا۔ افزودہ وژن کے ساتھ مصنوعی ذہانت میں اس بات کے بے شمار امکانات موجود ہیں کہ وہ انسانوں کے اپنے خیالات کی ترسیل کے عمل کو بہتر سے بہتر بنائے۔
کیا آپ ہمیں یہ بتائیں گیکہ کس طرح آپ نے لوگوں کو آگے بڑھنے اور ان کے معاشروں سے جڑنے میں مدد کی ہے؟
ایک شخص کی مثال میں پیش کرنا چاہتی ہوں جس کے ساتھ میں نے طویل عرصے تک کام کیا ہے۔ نیو یارک سٹی میں مقیم ایشلے ایک خاتون کاروباری پیشہ ورہیں۔ انہوں نے اپنا کام اس وقت شروع کیا جب وہ ٹیکنالوجی کا حصہ نہیں تھیں۔ اے ڈبلیو آئی ٹی پروگرام کے حصے کے طور پر ایشلے نے ہمارے کورسس کیے اور میں نے ان کی براہ راست طور پر رہنمائی بھی کی۔ وہ گوگل میں پروڈکٹ مینجمنٹ کی ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہو گئیں۔مجھے ساؤ پاؤلو اورامریکہ سے لوگوں کے پیغامات موصول ہوئےکہ کیسے وہ کورسیرا کی آن لائن کورسس سے مستفید ہو رہے ہیں اور اس نے کس طرح انہیں ترقی کرنے میںاور کس طرح تکنیک کی دنیا میں اپنے خوابوں کا رول تلاش کرنے میں مدد کی۔
کیا آپ اسپَین کے نوجوان قارئین کوکوئی مشورہ دینا چاہیں گی جنہیں مصنوعی ذہانت میں اپنا کریئرنظر آ رہا ہے؟
مصنوعی ذہانت کے تعلق سے جو بات واقعی دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ پہلے اور خاص طور پرگذشتہ دہائی میں ہمارے پاس بہت کم کوڈز تھے (یعنی سافٹ ویئر کی تیاری جس میں ایپلی کیشنس بنانے کے لیے بہت کم کوڈنگ کی ضرورت پڑتی تھی یا اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی)۔ بنیادی طور پراے آئی یا ’اسسٹنٹ سولیوشنس‘نے لوگوں کو کوڈ لکھنے میں مدد کی ہے۔ اس سے پہلے ایسا تھا کہ اگر آپ ایک کمپنی شروع کرنا چاہتے تھے تو آپ کو یہ سب خود کرنا پڑتا تھا۔ اگر آپ آج کی بات کریں تو ’جین اے آئی ‘کے استعمال کے ذریعے ہم تکنیکی کمپنیاں شروع کرنے کے قابلہو گئے ہیں۔ یہ چیز ہمیں ایک بڑا موقع فراہم کرتی ہے اور ان لوگوں کے لیے کمیونٹی کا دروازہ کھولتی ہے جن کو بصورت دیگر کمپنیاں شروع کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
https://spanmag.com/ur/accelerating-careers-nancy-wang/
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی