حال ہی میں سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ایک انتہائی سنسنی خیز دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے ان کے باتھ روم میں سننے کا آلہ نصب کر رکھا تھا۔ بہت سے لوگ یہ سن کر حیران ہیں۔ جانسن نے یہ باتیں اپنی کتاب ‘ان لیزڈ’میں لکھی ہیں۔ یہ کتاب 10 اکتوبر کو مارکیٹ میں آئے گی۔ ’دی ٹیلی گراف‘ نے اس کتاب کے کچھ اقتباسات شائع کیے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بورس جانسن کے لیے یہ چیزیں انتہائی غیر آرام دہ اور خوفناک تھیں۔سابق وزیر اعظم جانسن کو ڈر تھا کہ ان کی ذاتی گفتگو اسرائیلی حکام سن رہے ہیں۔ انہوں نے کتاب میں لکھا ہے کہ اس طرح کی باتیں ان کی اور نیتن یاہو کی دوستی کو بھی خطرہ لاحق کر سکتی ہیں۔ یہ سب اس کے لیے بہت عجیب اور پریشان کن تھا۔
سیکیورٹی اور رازداری کے مسائل
جانسن کے اس دعوے کے بعد سیکیورٹی اور پرائیویسی جیسے مسائل پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ کیا کسی ملک کو دوسرے ممالک کے رہنماؤں کی ذاتی زندگی میں اس طرح مداخلت کرنی چاہیے؟ جانسن کے مطابق ایسے معاملات میں سیکیورٹی بہت ضروری ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ رہنماؤں کی ذاتی معلومات کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اگر ایسے معاملات پر توجہ نہ دی گئی تو اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔
نیتن یاہو کا موقف
جانسن کے اس الزام پر بنجامن نیتن یاہو نے براہ راست کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اسرائیل ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ شفافیت اور اعتماد کے ساتھ کام کرتا ہے لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ آیا انہوں نے اس معاملے کی تحقیقات کا منصوبہ بنایا تھا یا نہیں۔ نیتن یاہو کا یہ ردعمل جانسن کے الزامات کی سنگینی کو مزید بڑھاتا ہے۔یہ پورا معاملہ جانسن کی سیاسی امیج کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ جانسن کا یہ دعویٰ سیاسی طور پر حساس ہو گیا ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک گیم سمجھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اسے ایک سنگین مسئلہ سمجھتے ہیں۔ کیا یہ سچ ہے کہ نیتن یاہو نے ایسا کیا؟ یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں گھوم رہا ہے۔ جانسن کی امیج پہلے ہی کئی تنازعات سے متاثر ہو چکی ہے، اس لیے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ کیس ان کی سیاست پر کیا اثر ڈالے گا۔
بھارت ایکسپریس۔