ملک کی پہلی گیٹ مین سلمیٰ بیگ
جو لوگ سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ بیٹیاں کیا کر سکتی ہیں، انہیں اپنے اردگرد نظر دوڑانی چاہیے۔ آج ہمارے ملک کی بیٹیاں ہر چیز میں آگے ہیں۔ کھیلوں سے لے کر عالمی پلیٹ فارمز تک، ہماری بیٹیاں ہمیں آگے لے جا رہی ہیں۔ لوگ چاہے بیٹی کو کتنا ہی بو جھ سمجھتے ہوں لیکن ہمارے ملک میں ایسی بہت سی بیٹیاں ہیں جنہوں نے کئی بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں بیٹوں سے کم نہیں ہیں۔
آج ایک ایسی ہی بیٹی کے بارے میں بات کی جا رہی ہے ، جسے پوری دنیا ہندوستان کی پہلی خاتون ریلوے گیٹ مین کے نام سے جانتی ہے۔ مرزا سلمیٰ بیگ لکھنؤ کی ایک ایسی لڑکی ہے جسے یہ خطاب ملا ہے۔ آئیے ان کے بارے میں تفصیل سے جانیں ۔
لکھنؤ کی رہنے والی مرزا سلمیٰ بیگ لکھنؤ کے قریب ملہور میں گیٹ مین کے طور پر تعینات ہیں۔ آپ اسے ملہور ریلوے کراسنگ پر گیٹ مین کے طور پر کام کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ سلمیٰ بیگ کا کام ٹرین کے آنے سے پہلے پھاٹک کو بند کرنا ہے تاکہ پٹریوں پر پیدل چلنے والوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے اور ٹرین گزرنے کے بعد اسے کھول دیا جائے۔
کیسے بنی وہ ملک کی پہلی گیٹ مین
مرزا سلمیٰ بیگ کے والد 2010 میں بیمار ہو گئے تھے۔ ان کی صحت مسلسل خراب ہو رہی تھی۔ اسی دوران والدہ کو بھی فالج کا دورہ پڑا۔ ایسے میں گھر چلانے کے لیے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والد کا کام سنبھالے گی۔ اس کے بعد انہوں نے محکمہ ریلوے سے اپیل کی اور ان کی درخواست پر غور کرنے کے بعد سلمیٰ بیگ کو ان کے والد کی جگہ کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس طرح سلمیٰ صرف 20 سال کی عمر میں ملک کی پہلی گیٹ وومن بن گئی۔ ڈیوٹی
سلمیٰ صبح سے کام شروع کر دیتی ہے۔ صبح 8 بجے بھرواڑہ کراسنگ پر پہنچنے کے بعد، وہ رات کے گیٹ مین سے تحریری طور پر ڈیوٹی بک میں اپنا چارج لے لیتی ہے۔ اس کے بعد وہ ٹرینوں اور مال گاڑیو ں کو گزرنے اور کراسنگ کھولنے کا کام کرتی ہے۔ وہ رات 8 بجے تک کام کرتی ہے۔
ایک معروف ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمیٰ نے بتایا کہ اس کام کو کرتے ہوئے انہیں ابتدا میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں پانی پینے اور واش روم جانے کے لیے کراسنگ سے دو کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ملہور اسٹیشن تک بہت دور جانا تھا۔ پھر ساتھی دربان بھی طعنے دیتے تھے۔ کام کافی جسمانی تھا اور جب وہ ٹریننگ کے لیے جاتی تھی تو اس کے پیچھے صرف مرد ہی باتیں کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سلمیٰ کچھ نہیں کر سکے گی۔ کراسنگ کو بند کرنے اور کھولنے کا کام ایک بھاری وچر خی کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس میں کافی محنت درکار ہوتی ہے۔ لیکن سلمیٰ نے یہ کر دکھایا اور اپنی قابلیت سے سب کو حیران کر دیا۔
جو لوگ بیٹیوں کے بارے میں صرف یہ سوچتے ہیں کہ وہ صرف گھر میں کام کرنے کے لئے ہیں، باہر جاکر وہ کچھ نہیں کر سکتی ان لوگوں کے لئے سلمی ایک مثال ہیں ،کیونکہ جو لوگ سلمی کی اس جاب پہ کمنٹ کرتے تھے کہ چار دن میں کام چھوڑ دیگی ۔اب اس جاب میں سلمی کو دس سال ہو گئے ہیں۔ تووہی لوگ سلمی کو سپورٹ کرتے ہیں ۔سلمی نے اس کام کے لئے عورتوں کی راہ ہموار کی ہے۔جس سے کوئی عورت اس پروفیشن میں جانے سے نہیں ہی ججھکےگی۔