Bharat Express

Chandrayaan-3: چاند پر زندگی بالکل ممکن نہیں، پھر بھی بھارت سمیت دیگر ممالک لاکھوں کروڑوں روپے کیوں خرچ کر رہے ہیں؟

چاند پر پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ تاہم سائنسدانوں نے کچھ ایسی جگہوں پر پانی کا امکان بتایا ہے جو قطب جنوبی کے نچلے حصے میں برف کی صورت میں پوشیدہ حالت میں ہو سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک اس کی سائنسی جانچ اور تصدیق ہونا باقی ہے

Chandrayaan-3

چندریان 3 کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک مشن مون کے تحت اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ روس نے بھی 47 سال بعد اپنا خلائی جہاز چاند پر بھیج دیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ چاند کے مدار میں ٹریفک بڑھ گئی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چاند پر زندگی ممکن ہے؟ اگر نہیں تو پھر دنیا کے تمام ممالک اتنا پیسہ کیوں خرچ کر رہے ہیں؟ اس کے لیے ہم سب سے پہلے تفصیل سے جانتے ہیں کہ آیا واقعی چاند پر زندگی ممکن ہے یا نہیں۔

کیا چاند پر زندگی ممکن ہے؟

اب تک کی تمام تحقیق اور دریافت کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ چاند پر زندگی کا ہونا بالکل ممکن نہیں۔ یہاں زمین جیسا ماحول نہیں ہے، تابکاری اور درجہ حرارت جیسی بنیادی وجوہات ایسی ہیں جو زندگی کے امکان کو رد کرتی ہیں۔

  مخالف ماحول 

چاند پر زمین جیسا ماحول بالکل نہیں ہے۔ یہاں کا ماحول بہت ظالمانہ اور مخالف ہے۔ اس کی وجہ سے زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ماحول اور پانی کا کوئی ذکر نہیں۔ موسم ایسا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ چاند کی سطح پر رات کا درجہ حرارت انتہائی سرد ہوتا ہے۔ جبکہ دن کا درجہ حرارت کافی گرم ہے۔ دن کے وقت جب سورج کی کرنیں براہ راست چاند پر پڑتی ہیں تو یہاں کا درجہ حرارت تقریباً 127 ڈگری سیلسیس ہو جاتا ہے۔ جبکہ رات کے وقت یہ -173 (مائنس میں) ڈگری سیلسیس رہتا ہے۔ جب پانی 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر ابلنے لگے تو تصور کریں کہ 127 ڈگری سیلسیس کے درجہ حرارت پر انسانوں کا کیا حال ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی مائنس 30 ڈگری گلیشیئر میں لوگوں کی قلفی جم جاتی ہے۔ چاند پر درجہ حرارت منفی 173 ڈگری سیلسیس ہے۔

پانی کی عدم موجودگی

چاند پر پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ تاہم سائنسدانوں نے کچھ ایسی جگہوں پر پانی کا امکان بتایا ہے جو قطب جنوبی کے نچلے حصے میں برف کی صورت میں پوشیدہ حالت میں ہو سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک اس کی سائنسی جانچ اور تصدیق ہونا باقی ہے۔ لیکن صرف برف یا پانی کی ایک بوند حاصل کرنے سے زندگی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ پانی کے ساتھ ساتھ پورے ایکو سسٹم کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے نیچے دیے گئے پیراگراف کو پڑھنا بہت ضروری ہے۔ تھوڑی سی سائنسی ذہانت کے ساتھ نیچے والے پیراگراف تک پہنچیں۔

ماحول کی کمی اور تابکاری کا خطرہ

چاند پر فضا کی کمی ہے۔ جس طرح سے ماحول زمین کو ڈھال فراہم کرتا ہے۔ چاند پر ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ ہمارے پاس ایک مضبوط ماحولیات یعنی ایکو سسٹم ہے جبکہ چاند پر ایسا بالکل نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کائناتی شعاعوں کی کئی اقسام زمین پر بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کافی خطرناک ہیں۔ لیکن زمین کی فضا ہمیں ان سے بچاتی ہے۔ لیکن چاند پر کائناتی تابکاری بہت زیادہ ہے۔ ایک طرح سے یہ شعاعیں زمین کے تمام تحقیقی مراکز کے لیے بھی ایک چیلنج ہیں۔ اس کے علاوہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں بھی براہ راست چاند کی سطح پر پڑتی ہیں۔

ویکیوم اور غذائی اجزاء

چاند پر خلا کی کیفیت ہے۔ ویکیوم کا مطلب ویکیوم ہے۔ اسکول میں آپ نے سائنس کی کتاب میں خلا کے بارے میں تفصیل سے پڑھا ہوگا۔ خلا کی حالت میں توانائی اور طاقت دونوں کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں کسی قسم کی نباتات یا انسانی نشوونما کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پھر چاند تک پہنچنے کی ضد کیوں؟

انسان بنیادی طور پر تجسس سے بھرپور مخلوق ہے۔ تمام جانداروں میں اس کے بہترین ہونے کی وجہ بھی اس کا تجسس اور تحقیق کی طاقت ہے۔ اپنی بنیادی فطرت کی وجہ سے انسان چاند کو اسی تجسس سے دیکھتا رہا ہے۔ چونکہ چاند زمین کے قریب ترین ہے۔ اس لیے زمین اور اس کی تاریخ کے لیے اس کے وجود کے مفہوم کو جاننے کے لیے ایک عرصے سے اصرار کیا جا رہا ہے۔ چاند فلکیاتی دنیا کو سمجھنے کی سمت میں ایک بہت بڑا سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ چاند پر مطالعہ سائنسدانوں کے لیے بہت قیمتی ہے۔ اس کی سطح، ساخت، ارضیات اور تاریخ کا مطالعہ کر کے پورے نظام شمسی کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں سائنسی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

کچھ محققین کا خیال ہے کہ چاند کے قطبوں کے قریب مستقل اندھیرے میں برف اور ایندھن کے ذخائر جیسے قیمتی وسائل ہو سکتے ہیں۔

سائنسی تحقیق کے علاوہ قوموں کے درمیان مقابلہ بازی اور چاند پر اپنا پرچم لگانے پر اصرار بھی اس کی کھوج کی ایک بڑی وجہ ہے۔ قومیں چاند کو ایک قومی وقار اور احترام سے جوڑ کر فتح کی طرف دیکھتی ہیں۔ 20ویں صدی میں، میں نے خلائی دوڑ دیکھی۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان خلائی تحقیق اور ٹیکنالوجی میں سخت مقابلے تھے۔ یہ مقابلہ آج بھی جاری ہے۔ تاہم اب چین، بھارت اور جاپان جیسے ممالک نے بھی اس میں چھلانگ لگا دی ہے۔

 بھارت ایکسپریس۔