نام میں کیا رکھا ہے؟ چار صدی قبل انگریزی کے مشہور مصنف ولیم شیکسپیر نے جب اپنی کلاسیکی تصنیف ‘رومیو اینڈ جولیٹ’ میں اس جملے کی تشکیل کی تھی ،تب انہیں لگا ہوگا کہ آخر ایک نام کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے؟ تب اس بات پر شیکسپیر سے بہت سارے لوگوں کو اتفاق بھی رہا ہوگا۔ ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس سوچ کو نظریاتی طور پر مسلسل چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔اگر آج کے وقت میں کوئی یہ پوچھے کہ نام میں کیا رکھا ہے، تو یقیناً ہی جواب ملے-سب کچھ۔ ملک میں آئندہ سال ہونے جارہے عام انتخابات کے لئے اپوزیشن اتحاد کے نام کے حوالے سے یہ بات پوری طرح سے فٹ بیٹھی ہے۔ اس اتحاد میں شامل 26 جماعتوں نے جس نام سے آئندہ سال عام انتخابات میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے وہ انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس یعنی انڈیا ہے۔ اتحاد کے اس نام کو لیکر ملک میں یکایک بڑی سیاسی بحث کھڑی ہوگئی اور فی الحال تو اپوزیشن اور حکمراں کی تمام جماعتیں اور سیاست اسی نام کے ارد گرد مرکوز ہوگئی ہے۔
دراصل یہ انڈیا لفظ قومیت کے اس جذبے کو حاصل کرنے کی کوشش ہے جس کو وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اپوزیشن سے چھین لیا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح وزیر اعظم مودی ہندوستان کے مترادف بن گئے ہیں۔ ان پر کوئی بھی حملہ ہندوستان پر حملہ ہے، مرکزی حکومت اور بی جے پی کا دعویٰ کروڑوں ہم وطنوں کو حقیقت کے قریب لگتا ہے۔ اپوزیشن نے اپنے اتحاد کو ”انڈیا” کا نام دے کر اس دعوے کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اب اس طرح کے سوالات فوری بحث کا مرکز بن گئے ہیں کہ کیا اب حکمراں جماعت اس لفظ پر اسی طرح حملہ کر پائے گی جس طرح اس نے یو پی اے کے لیے کیا ہے؟ یوپی اے کو ”انڈیا”سے بدل دیا جائے تو کیا یہ کہنا اتنا ہی آسان ہوگا کہ انڈیا بھارت مخالف ہے یا انڈیا پاکستان کا حامی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا 9 سال سے زیادہ عرصے سے ملک پر صاف ستھری حکومت کرنے والی حکمراں جماعت کا اتحاد این ڈی اے بھی اپوزیشن اتحاد کے اس نئے نام سے دباؤ میں ہے؟ اس سوال کے جواب کے کئی تہہ ہو سکتے ہیں، لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ مقبولیت کے عروج پر رہنے والے وزیر اعظم مودی جیسے تجربہ کار سیاست دان نے بھی موجودہ تناظر میں نئے سرے سے 25 سالہ این ڈی اے کی نئی تعریف متعین کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔
نئے نام کے ساتھ اور بھی کئی نئے سوالات ہوا میں تیرنے لگے ہیں؟ مثال کے طور پر، کیا محض ایک نیا اتحاد کمزور نظر آنے والی اپوزیشن کو حملہ کرنے کے لیے کافی مضبوط بنا دے گا۔ ملکی سیاست میں اپوزیشن چاہے کتنی ہی بکھری ہو یا حاشیے پر کیوں نہ ہو، جب وہ متحد ہوئی ہے تو اس نے اقتدار میں موجود پارٹی کو ہی نقصان پہنچایا ہے۔ 1977 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف جنتا پارٹی، 1988 میں راجیو گاندھی حکومت کے خلاف وی پی سنگھ کا نیشنل فرنٹ، 2004 میں این ڈی اے حکومت کے خلاف کانگریس، ڈی ایم کے اور آر جے ڈی کا یونائیٹڈ فرنٹ (جو بعد میں یونائیٹڈ پروگریسو فرنٹ یعنی یو پی اے بن گیا)جیسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ 2024 مختلف ہے۔ بی جے پی اور اپوزیشن کی طاقتوں اور مقبولیت میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ لیکن اس طرح کے دلائل کانگریس نے 1967، 1977 اور 1989 میں بھی پیش کیے تھے اور ہم سب جانتے ہیں کہ کیسے اس کا خاتمہ ہوا۔ آج کی بی جے پی اس وقت کی کانگریس سے کہیں زیادہ طاقتور ہو گئی ہے۔ لیکن کانگریس یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ملکارجن کھرگے کی قیادت میں اس کے اچھے دن آہستہ آہستہ لوٹ رہے ہیں۔ کرناٹک، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں پارٹی کی اندرونی گروپ بندی پر قابو پایاگیا ہے، ہماچل اور کرناٹک میں اس کی جیت ہوئی ہے، بھارت جوڑو یاترا نے راہل گاندھی کی ایک سنجیدہ سیاست دان کی شبیہ بنائی ہے۔ وغیرہ، وغیرہ۔
نئے اتحاد میں بھی کانگریس کو کافی توجہ مل رہی ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو کانگریس کو اتحاد میں رہنے کا کوئی سیدھا فائدہ ملتا نظر نہیں آرہا ہے۔ بی جے پی سے جن 190 سیٹوں پر اس کا سیدھے آمنے سامنے کا مقابلہ ہے وہاں ، 2019 میں، تیسری پارٹی کو کل پولنگ ووٹوں کا صرف چار فیصد ہی ووٹ حاصل ہواتھا، جب کہ ان سیٹوں پر بی جے پی کی برتری تقریباً 15 فیصد تھی۔ یعنی اگر ان سیٹوں پر کوئی تیسری پارٹی نہیں بھی رہے تب بھی کانگریس کو کافی محنت کرنی پڑے گی۔ اس کے برعکس، 185 سیٹوں پر جہاں بی جے پی علاقائی جماعتوں سے مقابلہ کر رہی تھی، وہاں بی جے پی سات فیصد سے آگے تھی۔ غور طلب ہے کہ اوسطاً تیسری پارٹی کو ان سیٹوں پر صرف سات فیصد ہی ووٹ ملے تھےاور ان میں سے 88 سیٹوں پر یہ تیسری پارٹی کانگریس تھی۔ یعنی کانگریس اپنے نیشنل رول کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹوں کو اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کے حق میں منتقل کر کے اتحاد کی جیت میں بڑا رول ادا کر سکتی ہے۔
ایک سوال سیٹ شیئرنگ سے متعلق ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی بڑا مسئلہ ہونا چاہیے۔ اگر 2019 میں انڈیا الائنس میں شامل پارٹیوں کی جیتی ہوئی سیٹیں شامل کی جائیں تو یہ تعداد 144 ہو جاتی ہے۔ 275 سے 300 کے درمیان سیٹیں ہیں جن پر انڈیا الائنس کی جماعتوں کے امیدوارہی دوسرے نمبر پر رہے۔ اس لیے 2019 میں تمام سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے لیے نمبر ون یا نمبر ٹو کے امیدواروں کو موقع دینے کے فارمولے کی کوشش کی جائے تو 425 کے قریب سیٹوں پر جھگڑے کی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں پیچ پھنس سکتے ہیں وہ کیرالہ، مغربی بنگال اور پنجاب کی سیٹیں ہیں۔ نمبر ون اور نمبر ٹو پارٹیاں عام طور پر اتحاد نہیں کرتیں کیونکہ ایسی صورت حال میں کسی نہ کسی ایک پارٹی اپنی بنیاد کھو دیتی ہے اور اسی بنیاد پر میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان دوستانہ لڑائی ہوگی۔ دوسری طرف، اگر کانگریس اور بائیں بازو کیرالا میں اکٹھے ہونے پر راضی ہو جاتے ہیں، تو یہ خود بخود بی جے پی کو ریاست میں قدم جمانے کا موقع دے گا۔ اس لیے وہاں بھی انڈیا اتحاد میں مقابلہ ہوگا۔ اسی طرح مغربی بنگال میں کانگریس اور ترنمول کانگریس کے درمیان بات بن سکتی ہے، لیکن بائیں بازو کسی بھی حالت میں ممتا بنرجی کے ساتھ نہیں آئے گی۔ اس لیے کم از کم ان تینوں ریاستوں میں ایسا لگتا ہے کہ انڈیا الائنس مل کر نہیں لڑے گا لیکن اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جیتنے والی کوئی بی جے پی مخالف پارٹی ہی ہوگی جو بالآخر ا نڈیا الائنس کی حمایت کرے گی۔ پھر تلنگانہ، آندھرا پردیش اور اڈیشہ جیسی ریاستیں ہیں جہاں نہ بی جے پی مضبوط ہے اور نہ ہی کانگریس۔ نتائج آنے کے بعد ان کا رخ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کی انتخابی مہم کیا ہونی چاہیے؟ مودی ہٹاؤ جمہوریت بچاؤ کی منفی مہم مقصد کے حصول کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوپائے گی۔ 2019 میں ‘چوکیدار چور ہے’ مہم کا انجام ہر کوئی جانتا ہے۔ اس وقت انڈیا الائنس ایجنسیوں کے غلط استعمال، جمہوریت خطرے میں، منی پور جیسے حساس مسائل پر مرکزی حکومت کی ناکامی، انسانی حقوق، مہنگائی، بے روزگاری جیسے معاملات پر زیادہ آواز اٹھا رہا ہے۔ یقیناً یہ اہم مسائل ہیں، لیکن طویل عرصے تک صرف ان مسائل پر شور مچانے سے انتخابی فصل نہیں کٹنے والی ۔ اس کے لیے انڈیا الائنس کو ان مسائل کا حل بھی سامنے لانا ہوگا، جیسے کہ وہ بے روزگاری کیسے دور کرے گا، نئی ملازمتیں کیسے پیدا کرے گا، اگر وہ اقتدار میں آتا ہے تو مہنگائی کو کم کرنے کے لیے اس کا کیا منصوبہ ہے؟ یاد رہے، 2014 میں نریندر مودی کی انتخابی مہم اس بات پر مرکوز تھی کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو وہ یو پی اے کے نظام حکومت کی خامیوں کو کیسے دور کریں گے، اور اس کے لیے انہوں نے اس وقت کے گجرات ماڈل کو ملک کے سامنے رکھا تھا۔
سب سے بڑا سوال قیادت کے چہرے کا ہو گا۔ 2019 میں ایک معروف ایجنسی کے سروے کے مطابق 37 فیصد ووٹروں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے کی بنیاد پر ووٹ کیاتھا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر اپوزیشن اتحاد بغیر کسی چہرے کے میدان میں اترتا ہے تو اسے اس 37 فیصد ووٹوں کا بڑا حصہ کھونے کا خطرہ ہوگا۔ ایسی صورت حال میں اپوزیشن اتحاد کے سامنے دو ہی راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ چہرے کے ساتھ سامنے آئے۔ راہل گاندھی، کھرگے، نتیش، شرد پوار، ممتا، اسٹالن یا کوئی اور جس کے ارد گرد ووٹروں کو اگلے 10 مہینوں میں متحرک کیا جا ئے۔ دوسرا آپشن بنا چہرہ کے مقامی بنیادوں پر سیٹ در سیٹ کی لڑائی کا ہو سکتا ہے، جیسا کہ کانگریس نے راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ اور حال ہی میں ہماچل اور کرناٹک میں کامیابی کے ساتھ کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن بالآخر اس لڑائی کو پی ایم مودی بمقابلہ ”انڈیا”کی شکل دینے کی کوشش کرے گی۔
دوسری طرف این ڈی اے کی بات کریں تو 9 سال سے زیادہ حکومت کرنے کے بعد بھی وزیر اعظم مودی کی مقبولیت شک سے بالاتر ہے۔ ایسی صورت حال میں، اگر این ڈی اے کے خلاف اپوزیشن اتحاد کسی بھی طرح ہر سیٹ پر ایک مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ زیادہ سے زیادہ 70-80 سیٹوں پر بی جے پی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تب بھی بی جے پی اکثریت سے بہت زیادہ دور نہیں ہوگی۔ حکومت بنانے کے لیےاسے بڑی پارٹیوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ریاستوں کی حدود میں بندھی چھوٹی پارٹیاں بھی بی جے پی کی کشتی کو پار لگا سکتی ہیں۔ این ڈی اے اتحاد میں 39 پارٹیوں کی موجودگی کی یہی بنیادی وجہ ہے – جیسے اتر پردیش میں اوم پرکاش راج بھر کی مثال لیں۔ بہت سے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ مودی اور یوگی کا امتزاج اتر پردیش میں بھی ناقابل شکست ہے۔ اس کے باوجود راج بھر کو لا کر بی جے پی نے بنارس اور گورکھپور کے درمیان پرُوانچل میں لوک سبھا کی چھ سیٹیوں کو محفوظ کرلیا ہے۔ 2014 میں جب راج بھر ان کے ساتھ تھے، ان سیٹوں پر این ڈی اے نے اچھا مظاہرہ کیاتھا، لیکن 2019 میں جب راج بھر اکھلیش کے ساتھ گئے تو ان سیٹوں پر این ڈی اے کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اس طرح راج بھر کو ساتھ لے کر این ڈی اے نے نقصان کو فائدہ میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ بہار اور مہاراشٹر کے حوالے سے بھی بی جے پی کی یہی حکمت عملی نظر آئی ہے۔
خلاصے کے طور پر کہوں تو 2024 کے عام انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں، اس کی شروعات ہندوستانی سیاست کے لیے اچھی نظرآرہی ہے۔ ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد کا بنیادی مثبت فائدہ یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں مینڈیٹ کے لیے لڑنے والے دو اہم گروہ سے جمہوریت کو فائدہ پہنچے گا۔ کسی ایک پارٹی کے غلبے سے کسی بھی ملک کا فائدہ نہیں ہوتا ہےاور ہر حکومت کو ایک مضبوط اپوزیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔