Bharat Express

Blinken heads to Saudi Arabia with Israel ties on agenda: سعودی عرب -اسرائیل کے تعلقات استوار کرنے کے ایجنڈے کے ساتھ جدہ پہنچے امریکی وزیرخارجہ

بلنکن نے طاقتور اسرائیل نواز لابی اے آئی پی اے سی سے ایک تقریر میں کہا، “امریکہ کا اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان  تعلقات کومعمول پر لانے میں حقیقی قومی سلامتی کا مفاد ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم یہ کام  کر سکتے ہیں اور درحقیقت ہمیں اسے آگے بڑھانے میں ایک لازمی کردار ادا کرنا چاہیے۔

Blinken heads to Saudi Arabia with Israel ties on agenda: امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن منگل کو تین روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچے ہیں ، اس دورے کا مقصد سیکورٹی اور اقتصادی تعاون پر مرکوز ہے کیونکہ بائیڈن انتظامیہ ریاض کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے، چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنے اور اسرائیل –سعودی عرب کے درمیان رشتے بحال کرنے کوشش کر رہی ہے۔بلنکن کے 6-8 جون کے دورے کے ایجنڈے میں سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ ممکنہ  تعلقات معمول پر لانا  شامل ہے۔بائیڈن  انتظامیہ نے  پہلے بھی ابراہم معاہدوں کو قبول کرنے کیلئے سعودی عرب سے بات کی ہے، جس معاہدے کے تحت 2020 میں یہودی ریاست نے متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔ بلنکن نے پیر کو واشنگٹن میں امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی کے سامنے  اپنے خطاب میں کہا، “امریکہ کا اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان  تعلقات معمول پر لانے میں حقیقی قومی سلامتی کا مفاد ہے۔ہمیں یقین ہے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں اور درحقیقت ہمیں اسے آگے بڑھانے میں ایک لازمی کردار ادا کرنا چاہیے۔

 امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ بلنکن سعودی ہم منصبوں کے ساتھ سوڈان سمیت علاقائی کشیدگی میں کمی کے مواقع پر بھی بات کریں گے۔ انتظامیہ سعودی عرب کو پھنسے ہوئے امریکی شہریوں کو نکالنے اور متحارب سوڈانی جرنیلوں کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کا سہرا دیتی ہے۔ امریکی حکام کو یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کے تعاون کی بھی ضرورت ہے، جہاں گزشتہ سال سعودی حمایت یافتہ حکومت اور ایران سے منسلک حوثی باغیوں کے درمیان طے پانے والی ایک متزلزل جنگ بندی نے بڑی حد تک لڑائی روک دی ہے جس میں 2014 سے اب تک 150,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکی ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری برائے جزیرہ نما عرب امور ڈینیل بینیم نے صحافیوں کو بتایا کہ “اس سفر میں آپ جو کچھ دیکھیں گے وہ امریکہ اور سعودی تعلقات کا ایک وژن ہے جس کی جڑیں دفاع ،سلامتی اور انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں تعاون کے ہمارے تاریخی بنیادوں پر ہیں۔جمعرات کو بلنکن اور ان کے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود داعش کے خلاف عالمی اتحاد کے وزارتی سطح کے اجلاس کی مشترکہ میزبانی کریں گے۔ بلنکن خلیج تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔

سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مکمل معمول پر لانے کی قیمت میں مبینہ طور پر امریکہ کی جانب سے سیکورٹی کی ضمانتیں، ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ اور سویلین نیوکلیئر پاور پروگرام کے لیے حمایت شامل ہے جس میں یورینیم کی افزودگی بھی شامل ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران مشرق وسطیٰ کے لیے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکار ڈیوڈ شینکر جو اب واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی میں ہیں، نے کہا کہ سعودی ظاہر ہے کہ امریکہ سے کچھ ایسا چاہتے ہیں جو ان کے لیے سٹریٹجک اور معاشی فائدہ مند ہو۔لیکن وہ  امریکہ سے بھی  کچھ چیزیں چاہتے ہیں جن کا صدر  امریکہ عہد نہیں کر سکتے کیونکہ ان سب کے لیے کانگریس کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔

حالانکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پیر کو اپنے عرب دورے کے موقع پر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر زور دیا تھا۔ بلنکن نے طاقتور اسرائیل نواز لابی اے آئی پی اے سی سے ایک تقریر میں کہا، “امریکہ کا اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان  تعلقات کومعمول پر لانے میں حقیقی قومی سلامتی کا مفاد ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم یہ کام  کر سکتے ہیں اور درحقیقت ہمیں اسے آگے بڑھانے میں ایک لازمی کردار ادا کرنا چاہیے۔ امریکی وزیر خارجہ  کا یہ دورہ اس ناحیے سے بھی اہم مانا جاتا ہے کہ سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر پہلی بار واضح انداز میں گفتگو ہوسکتی ہے اور اس میں سعودی کا موقف اور شرائط کھل کر سامنے آسکتے ہیں۔

بھارت ایکسپریس۔