Bharat Express

Muslim organizations will adopt all legal means: وقف اراضی کو بچانے کی تمام قانونی طریقے اپنائے جائیں گے:جماعت اسلامی ہند

حکومت کو بجٹ 2025-26 کو وسیع تر مفاد میں دیکھنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس بجٹ میں  کل اخراجات میں تقریباً ایک لاکھ کروڑ کی کمی ہوئی ہے۔ اس سے سماجی اور فلاحی اخراجات پر منفی اثر پڑے گا اور غریبوں کی حالت مزید خراب ہوگی۔

جماعت اسلامی ہند کے مرکز، نئی دہلی میں منعقدہ کانفرنس میں صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ’’  جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے نائب امیر پروفیسر سلیم انیجنیئر نے کہا کہ ’’ ہم وقف ترمیمی بل 2024 کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ اس بل سے مسلمانوں کے مذہبی اور آئینی حقوق کو خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپوزیشن کے اعتراضات اورشہریوں کی طرف سے درج کرائے گئے لاکھوں اعتراضات کو  بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بل متعصبانہ جذبات کے تحت لایا گیا ہے۔ یہ بل متولیوں کے کردار کو تبدیل اور وقف بورڈ کی آزادی کو ختم کرتا ہے۔ خاص طور سے سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد میں شمولیت کی گنجائش پیدا کر دی گئی  ہے جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے‘‘ ۔ انہوں نے ’ وقف بورڈ کے سی ای او‘ کی تقرری کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس میں ریاستی حکومتوں کو براہ راست تقرریوں کی اجازت دی جارہی ہے۔ یہ اوقاف پر براہ راست سیاسی مداخلت اور کنٹرول کا باعث بنے گا‘‘۔جماعت اسلامی ہند تمام سیکولر جماعتوں بشمول این ڈی اے اتحادیوں اور دیگر اپوزیشن سے اس بل کی مخالفت کرنے کی اپیل کرتی ہے‘‘ ۔

 جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری سید تنویر احمد نے پریاگ راج مہا کمبھ میں ہوئی بھگدڑ کے المناک واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بہت سے معصوم عقیدت مندوں کی جانیں چلی گئیں۔ دکھ کی اس گھڑی میں غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہماری دلی تعزیت ہے۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس سانحے میں کھو دیا ہے۔ ہم تمام پسماندگان  کے لیے صبر اور تحمل کی دعا کرتے ہیں۔ اس پورے واقعے کی ذمہ داری مرکز اور یو پی حکومت کو براہ راست لینی چاہئے اور انتظامات میں پائی جانے والی خامیوں کو فوری طور پر دور کرنا چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ میڈیا کو ایک بڑے ایونٹ کے انتظام میں موجود خامیوں کا تنقیدی تجزیہ کرنے سے روک دیا جوحکومت اور انتظامیہ کو ان کوتاہیوں کو بروقت دور کرنے، ان کو بہتر بنانے اور کسی بحران سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار کر سکتا تھا۔ بھگدڑ کے بعد بہت سے شردھالوؤں کو مساجد میں پناہ دی گئی اور انہیں کھانا، کمبل اور دیگر ضروری چیزیں فراہم کرنے کا معقول انتظام کیا گیا۔ یہ کوششیں ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ نفرت کے ماحول کے باوجود ملک کے عام شہری بالخصوص مسلمان عوام کی خدمت کے لیے  ہمیشہ سنجیدہ رہے ہیں ۔ ہمارے لیڈران اور پوری قوم کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ اور یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے افراد سے تحریک حاصل کرنی چاہیے‘‘۔

مرکزی حکومت کے سالانہ مالی بجٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ہم مرکزی حکومت کے بجٹ 2025-26 میں شامل بہت سے مثبت پہلوؤں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس بجٹ میں انکم ٹیکس میں کی جانی والی کٹوتی، چھوٹ کی حد کو بڑھا کر 12 لاکھ روپے کرنا اور متوسط طبقے کے افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے سلیب کو ایڈجسٹ کرنا وغیرہ قابل ستائش ہیں۔ بجٹ کی دوسری مثبت بات یہ ہے کہ ایک لاکھ کروڑ روپے کے مالیاتی نقصان کے باوجود بجٹ مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 4.4 فیصد تک برقرار رکھنے سے قرضے پر قابو رکھنے میں مدد ملے گی ۔ قرضے پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے ریگولیٹری اصلاحات پر بھی زور دیا جائے جس سے کہ لوگوں کو کاروبار کرنے میں آسانی اور سرمایہ کاری میں مدد ملے‘‘۔

پروفیسر سلیم انجینر مزید کہا کہ ان مثبت باتوں کے اعتراف کے ساتھ ہی اس بجٹ سے کئی حوالوں سے مایوسی بھی ہے۔ روزگار کے شدید بحران کی وجہ سے نوجوان طبقے میں بڑھتی بے روزگاری، جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی، ایسے مسائل ہیں جس سے سرمایہ اور زرعی نمو کی بنیاد پر وزیر مالیات کے لیے معاشی پالیسی پر نظر ثانی کا ایک اچھا موقع تھا تاکہ سب کو انصاف اور مساوی ترقی کے مواقع مل سکیں۔ جماعت اسلامی ہند نے بجٹ سے پہلے ملک میں پھیلی عدم مساوات، بے روزگاری اور پسماندگی کو دور کرنے کے لیے اپنی تجاویز وزارت خزانہ کو پیش کی تھیں۔ ان تجاویز میں سپلائی سائیڈ حکمت عملی سے آگے بڑھنے کی بھرپورتائد کی گئی تھی۔ اس کے تحت کاروباری ترقی اور ٹیکس مراعات پر خصوصی توجہ دلائی گئی تھی۔ ڈیمانڈ سائیڈ اپروچ جس کا مقصد شہریوں کی قوت خرید کو بڑھانا، کھپت کو متحرک کرنا اور فلاح و بہبود کوفروغ دینا ہے۔ لیکن یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب ہم نے بجٹ کا جائزہ لیا  تو محسوس ہوا کہ ہماری زیادہ تر تجاویز کو حکومت نے نظر انداز کر دیا ہے۔

سلیم انجینئر نے کہا کہ حکومت کو بجٹ 2025-26 کو وسیع تر مفاد میں دیکھنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس بجٹ میں  کل اخراجات میں تقریباً ایک لاکھ کروڑ کی کمی ہوئی ہے۔ اس سے سماجی اور فلاحی اخراجات پر منفی اثر پڑے گا اور غریبوں کی حالت مزید خراب ہوگی۔ ہم نے حکومت سے منریگا میں کی گئی کٹوتیوں کو واپس لینے، شہری روزگاراسکیموں کوعوام میں متعارف کرانے، طبی خدمات کے اخراجات کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک بڑھانے اور جی ڈی پی کا 6 فیصد مختص کرنے کے ساتھ ایک جامع تعلیمی مشن شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ  اس بجٹ میں اقلیتوں اور’ ایس سی، ایس ٹی‘ کی ترقی کے لیے واضح طور سے کوئی پالیسی بیان نہیں کی گئی ہے ۔ اس کی وجہ سے سماجی انصاف کے بہت سے مسئلے حل نہیں ہو پائیں گے۔ ہم نے ضروری اشیاء پر جی ایس ٹی کو 5 فیصد کی حد تک محدود کرنے، لگژری ٹیکس متعارف کرانے، بڑی کارپوریشنوں پر ونڈ فال ٹیکس لگانے اور ریاستوں کا حصہ بڑھانے کا مشورہ دیا تھا۔

انجینئر سلیم نے کہا کہ بدقسمتی سے بجٹ ان اہم محاذوں پر خاموش ہے۔ اسی طرح بجٹ میں غیر ملکی ٹیک کمپنیوں پرڈیجیٹل ٹیکس ، انفراسٹرکچر بانڈز، اور مضبوط ’سی ایس آر ‘کے معیارات کو شامل نہیں کیا گیا ۔ ان اصلاحات کی عدم موجودگی نا برابری کو دور کرنے، فلاحی پروگراموں کے لیے آمدنی پیدا کرنے اور مالیاتی انصاف کو یقینی بنانے کے ہدف سے دور کرتی ہے۔ ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ حکومت کو ایک ترقی پسند ریونیو پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جو عام شہریوں کو ترجیح دے اور مساوی ترقی کے لیے کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کے جال میں پھنسنے سے بچنے کے لیے ہمیں ایک جرات مندانہ قدم اٹھانا چاہیے۔ ایکویٹی پر مبنی مالیاتی ماڈل اور اس مقصد کے لیے ہم روایتی بینکوں میں سود سے پاک بینکنگ ونڈو کو متعارف کرکے ایک نئی شروعات کر سکتے ہیں۔ ہم نے یہ تجویز وزارت مالیات کو دی تھی۔ ہمیں مالی اور اقتصادی چیلنجوں کا مقاملہ کرنے میں پیچھے نہیں ہٹنا چااہئے۔ہمیں امید ہے کہ حکومت متعصبانہ اور ووٹ بینک کی سیاست سے اوپر اٹھ کر اس بجٹ کو معاشی پالیسی میں حقیقی تبدیلی کا ایک ذریعہ بنائے گی جس سے ملک اورعوام کو حقیقی معاشی ترقی حاصل ہو سکے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read