افغانستان بھوک مری سے دوچار ہے ، ایک بڑی آبادی بمشکل دو وقت کا کھانا کھا پارہی ہے وہیں ایک بڑی آبادی ایسی بھی ہے جو صرف چائے اور روٹی پر گزارا کررہی ہے۔دراصل اقوام متحدہ کے ادارے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے افغانستان میں سربراہ، ہساوی لی نے انکشاف کیا ہے امریکہ کی جانب سے امداد معطل ہونے کے بعد ادارہ ایک کروڑ بیس لاکھ افغانوں میں سے نصف کو خوراک مہیا کر پائے گا، بقیہ افغان مجبور ہوں گے کہ مانگ تانگ کر چائے روٹی پر گذارہ کریں۔یاد رہے طالبان حکومت پر لگی عالمی پابندیوں کے باعث ملک میں معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور ملکی زراعت سوا چار کروڑ آبادی کی ضروریات ِخوراک پوری نہیں کر پا رہی۔اس لیے ورلڈ فوڈ پروگرام لاکھوں افغانوں کو غذا فراہم کر رہا تھا جو امریکی امداد رکنے سے بہت کم رہ گئی۔ یوں مملکت میں غربت و بیماری و بیروزگاری میں اضافہ ہو گا جو پاکستان کے لیے بھی تشویش ناک امر ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال کے اخیر میں امداد دینے والے اداروں نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں اس موسم سرما کے دوران ہر تین میں سے کم از کم ایک فرد شدید غذائی قلت کا شکار ہوگا، کیونکہ جنگ سے متاثرہ یہ ملک قحط یا ایمرجنسی سطح کی بھوک کا سامنا کر رہا ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور ’سیو دی چلڈرن‘ نامی این جی او کی پیش گوئی کے مطابق، خاص طور پر بچے آئندہ تین مہینوں میں زندہ رہنے کے لیے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کریں گےجو کہ اب حقیقت میں نظرآرہا ہے۔ادارے کے ترجمان فلپ کروف نے بتایا تھاکہ ’سردی کا موسم افغانستان میں بھوک کے اثرات سب سے زیادہ شدید بنا دیتا ہے اور ڈبلیو ایف پی کو توقع ہے کہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد یا افغانستان کی آبادی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی مدد کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے مزیدکہا کہ رواں سال گزشتہ برس کے مقابلے میں مزید پانچ لاکھ 70 ہزار بچے غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ 2025 میں کل 34 لاکھ 50 ہزار بچے غذائی قلت کا شکار ہوں گے۔ سیو دی چلڈرن کے ایک اور جائزے کے مطابق افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی تقریباً دو کروڑ 40 لاکھ افراد کو آنے والے مہینوں میں غربت اور غذائی عدم تحفظ سے بچنے کے لیے نقد رقم اور خوراک کی فراہمی جیسی انسانی امداد کی اشد ضرورت ہوگی۔افغانستان میں اس غیر منافع بخش تنظیم کے کنٹری ڈائریکٹر ارشد ملک کے مطابق سردیوں کی آمد اور درجہ حرارت گرنے کے ساتھ افغانستان کے کچھ حصوں میں خاندانوں کو دلخراش فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں کہ کس چیز کو ترجیح دیں – کھانے کو، حرارت کو، یا بچوں کے لیے گرم کپڑوں کو۔
بھارت ایکسپریس۔