سعودی عرب کے شہر جدہ میں چوتھے بحیرہ احمر کے بین الاقوامی فلم فیسٹیول کے مقابلہ سیکشن میں کئی فلمیں دکھائی گئی ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں اسلامک اسٹیٹ (ISIS) کی وحشیانہ دہشت گردی کے خلاف براہ راست سنیما مزاحمت پیش کرتی ہیں۔ ایسے معاملات میں ان ممالک کی حکومتیں اکثر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ تیونس کے لطفی اچور کی فلم ‘ریڈ پاتھ’ ایسے ہی سچے واقعات پر مبنی ہے۔ گزشتہ سال تیونس کی خاتون فلمساز کوثر بن ہانیہ کی فلم ‘فور ڈٹرز’ بہت مقبول ہوئی تھی،جس میں انہو ں نے اسلامک اسٹیٹ کے ہاتھوں معصوم مسلمان لڑکیوں کی برین واشنگ اور جنسی استحصال کو بے نقاب کیا گیاتھا۔
تیونس کے لطفی اچور کو ان کی ایڈونچر فلم ‘ریڈ پاتھ’ کے لیے چوتھے ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بہترین ہدایت کار ($10,000) اور بہترین فلم ($100,000) کے گولڈن یوزر ایوارڈ سے نوازا گیا، جیوری کے چیئرمین مشہور سیاہ فام بالی ووڈ فلم ساز اسپائک لی نے اس ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ‘ریڈ پاتھ’ ایک غیر معمولی فلم ہے جو ہمارے دور کے ایک بہت بڑے مسئلے کو اجاگر کرتی ہے۔ فلم کے ہدایت کار لطفی اچور نے کہا کہ جب اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں نے دوسرے بھائی کو بھی قتل کردیا تو انہوں نے اس فلم کو بنانے کے لیے ارادہ کرلیا ، وہ پہلے ہی بڑے بھائی کو قتل کر چکے تھے اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلانے کے لیے اس کے دونوں ہاتھ پیچھے باندھ کر گھٹنے کے بل پر بٹھا کر سر قلم کئے جانے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرچکے تھے ۔
‘ریڈ پاتھ’ شمالی تیونس کے پہاڑی علاقوں میں چرواہے برادری سے تعلق رکھنے والے دس سالہ لڑکے اشرف کی زخمی نفسیات کا ایک غیر معمولی سفر ہے۔ اشرف اور اس کا کزن بڑا بھائی نذیر ایک پہاڑی گاؤں میں اپنے خاندان کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ ہر روز پہاڑوں اور جنگلوں میں بھیڑ بکریاں چرانے جاتے ہیں اور دریاؤں میں بہت مزے مستی کرتے ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلامک اسٹیٹ نے ان کے پہاڑوں میں اپنا کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ نذیر کو اپنے گاؤں کی ایک لڑکی سے پیار ہے اور جلد ہی دونوں شادی کرنے والے ہیں۔ ایک دن جب یہ دونوں بھائی دریا میں نہا رہے تھے، اچانک اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے انہیں پکڑ لیا اور اشرف کے سامنے اس کے بھائی سر قلم کر دیا۔ اپنے تیز ہتھیار کو آزمانے کے لیے، انہوں نے پہلے ایک بھیڑ کا سر کاٹ دیا۔ وہ اشرف کو حکم دیتا ہے کہ نذیر کا کٹا ہوا سر ایک تھیلے میں ڈال کر اس کے گھر والوں کو پہچانے کا حکم دیتے ہیں۔ یہ ایک دل دہلا دینے والا منظر ہے۔ اب نذیر کے والد کا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک اس کی باقی لاش نہیں مل جاتی تب تک اسے مذہبی رسومات کے ساتھ ادا نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے والد گاؤں والوں کے ساتھ اشرف کی مدد سے جنگل میں نذیر کی کٹی ہوئی لاش تلاش کرنے نکلتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ مقامی پولیس اور انتظامیہ ان گاؤں والوں کی کوئی مدد نہیں کرتی۔
یہ وار زون اشرف کے بچپن کے ذہن پر ہمیشہ کے لیے داغ چھوڑ جاتا ہے۔ نذیر کی گرل فرینڈ اسے سنبھانلے کی کوشش کرتی ہے۔ اشرف کوبار بار نذیر کا بھوت دیکھائی دیتا ہے اور اس سے باتیں کرتا ہے۔ فلم ان کے ذہنی سفر کو بہت اچھی طرح سے اجاگر کرتی ہے۔ سچ تو یہ تھا کہ بعد میں اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گرد اشرف کو بھی مار ڈالتے ہیں، لیکن ہدایت کار نے سنیما کی آزادی کو لے کر یہاں کہانی بدل دی ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اشرف کے والد اسے شہر کے ایک بورڈنگ اسکول بھیج رہے ہیں۔ آخری منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اشرف ایک بند گاڑی میں اپنا سامان لے کر شہر کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ نذیر کی گرل فرینڈ اس کے پیچھے بھاگتی ہے اور گاڑی سے اڑتی دھول میں گم ہو جاتی ہے۔ شاید وہ آخری بار اشرف سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔
عراق کے ادے رشید کی جادوئی حقیقت پسندانہ فلم ’سانگز آف ایڈم‘ کو بہترین اسکرین پلے کا ایوارڈ (10 ہزار ڈالر) ملا۔ اس کا سکرپٹ بھی ادے رشید نے لکھا ہے۔ دس سالہ آدم اپنے چھوٹے بھائی علی کے ساتھ اپنے دادا کی لاش کو تدفین سے پہلے نہلاتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ یہ عراق کے ایک سودر گاؤں میں 1946 کی بات ہے۔ اس کی کزن ایمان کو یہ سب دیکھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک لڑکی ہے اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس منظر کو دیکھ کر آدم کو ایک روحانی احساس ہوتا ہے اور وہ اچانک اعلان کرتا ہے کہ وہ بڑا نہیں ہونا چاہتا۔ اس وقت اس کی عمر رک جاتی ہے۔ گاؤں والوں کا ماننا ہے کہ اسے ایک بری روح کا سایہ ہے اور اسے گاؤں کے باہر ایک کمرے میں قید کر دیا جاتاہے۔ وقت گزرتا رہتا ہے۔ 1964 میں اس کے والد اسلامک اسٹیٹ اور فوج کی فائرنگ میں مارے جاتے ہیں۔ پوری فلم ایک دس سالہ لڑکے آدم کی روحانی نظرسےعراق کی دھندلی تاریخ کا سفر بیان کرتی ہے۔
بھارت ایکسپریس