Bharat Express

Erdogan ally floats Turkiye constitutional amendment: اردوغان کو پوتن کا فارمولہ آیا پسند، تیسری مدت کی راہ ہموار کرنے کیلئے آئینی ترمیم پر کام کردیا شروع

نیشنلسٹ موومنٹ کے رہنما دیولت باہسیلی نے کہا کہ “اگر دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے اور اگر مہنگائی کو زبردست دھچکا لگا دیا جائے اور ترکیہ سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کر لے تو کیا یہ ایک فطری اور صحیح انتخاب نہیں ہو گا کہ ہمارے صدر کا ایک بار پھر انتخاب ہو۔

ترکیہ کے رہنمااورصدر رجب طیب اردوغان کے اہم سیاسی اتحادی نے منگل کے روز کہا کہ صدر کو 2028 کے انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کی اجازت دینے کے لیے آئینی ترمیم پر غور کیا جانا چاہیے۔گزشتہ سال دوبارہ منتخب ہونے کے بعد، اردوغان صدر کے طور پر اپنی آخری مدت پوری کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ترکیہ پر 21 سال سے زیادہ حکومت کی ہے، پہلے وزیر اعظم اور پھر صدر کے طور پرانہوں نے قیادت کی ۔البتہ اب چونکہ ان کیلئے آگے کا راستہ آئینی طور پر بند ہے اس لئے ان کے اتحادی اس کو کھولنے کیلئے آئین میں ترمیم کی تجویز پیش کررہے ہیں ۔

نیشنلسٹ موومنٹ کے رہنما دیولت باہسیلی نے کہا کہ “اگر دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے اور اگر مہنگائی کو زبردست دھچکا لگا دیا جائے اور ترکیہ سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کر لے تو کیا یہ ایک فطری اور صحیح انتخاب نہیں ہو گا کہ ہمارے صدر کا ایک بار پھر انتخاب ہو۔ پارٹی ایم ایچ پی، جو اردوغان کی حکمران اے کے پارٹی کے ساتھ اتحادی ہے،اس کی طرف سے یہ موقف ظاہر کیا گیا ہے۔پارٹی کی قیادت نے قانون سازوں سے پارلیمانی تقریر میں کہا کہ صدارتی انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کی اردوغان کی اہلیت کو محفوظ بنانے کے لیے ایک آئینی ترمیم پر غور کیا جانا چاہیے۔

باہسیلی، ایک سخت گیر قوم پرست رہنما ہیں ، انہوں نے گزشتہ ماہ ترک سیاست میں اس وقت ہنگامہ کھڑا کردی اتھا  جب کہا تھا کہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے جیل میں بند رہنما کو پارلیمنٹ میں بولنے کی اجازت دی جا سکتی ہے،اس شرط پر کہ  اگر وہ گروپ کی بغاوت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں۔البتہ اب انہوں نے اردوغان کی تیسری مدت کار کیلئے راہ ہموار کرنے سے متعلق بیان دے کر نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔اگر 600 نشستوں والی پارلیمنٹ میں 360 قانون ساز اس کی حمایت کرتے ہیں تو آئینی تبدیلی ریفرنڈم میں ڈالی جا سکتی ہے۔ قبل از وقت انتخابات کے لیے 360 ارکان پارلیمنٹ کی حمایت کی بھی ضرورت ہے۔حالانکہ اے کے پی اور اس کے اتحادیوں کے پاس 321 جبکہ ڈی ای ایم کی 57 نشستیں ہیں۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read