Bharat Express

UP Madrasas

یوپی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اس نے ہائی کورٹ کے حکم کو قبول کر لیا ہے۔ مدرسہ کی وجہ سے حکومت کو سالانہ 1096 کروڑ روپے کا خرچہ ہو رہا تھا۔ مدارس کے طلباء کو دوسرے اسکولوں میں داخل کیا جائے گا لیکن درخواست گزاروں نے دلیل دی کہ اس حکم سے 17 لاکھ طلباء اور 10 ہزار اساتذہ متاثر ہوں گے۔

ہائی کورٹ کی بنچ نے ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ یوپی مدرسہ بورڈ سے پوچھا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین کے لیے ایک مسلم ماہر تعلیم اور دیگر اراکین کا مسلم کمیونٹی سے ہونا کیوں لازمی قرار دیا گیا ہے؟

سال 2016 میں یوپی کی اکھلیش حکومت کے ذریعہ بڑھائے گئے مدارس کے سائنس ٹیچروں کو ہر ماہ 8000 (گریجویٹ مدرسہ ٹیچر) اور 15000  روپئے (ماسٹرس مدرسہ ٹیچر) کا اعزازیہ دیا جا رہا تھا۔ پہلے مرکزی حکومت نے اس اعزازیہ پر روک لگائی تھی اور اب یوگی حکومت نے بھی اسے بند کردیا ہے۔

مدارس کے مالی وسائل کی تفتیش کے لئے قائم تین رکنی ایس آئی ٹی کی ٹیم نے ایسے 80 مدارس کی نشاندہی کی ہے، جنہوں نے گزشتہ دو سالوں میں عطیہ کے ذریعہ مختلف ممالک سے 100 کروڑ روپئے حاصل کئے ہیں۔

یوپی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین افتخاراحمد جاوید نے ناخوشی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کی جانچ اب ایک مستقل عمل بن گیا ہے اور بار بار جانچ ہونے سے مدارس میں تعلیمی کاموں اور دیگر سرگرمیوں میں رخنہ اندازی ہوتی ہے۔

یہ ایس آئی ٹی اتر پردیش میں مدارس کی فنڈنگ کی تحقیقات کرے گی۔ یہ ایس آئی ٹی اس بات کی جانچ کے لیے بنائی گئی ہے کہ کن مدارس کو بیرون ملک سے کتنی رقم مل رہی ہے اور یہ رقم کہاں استعمال ہو رہی ہے۔

دار العلوم دیوبند کی مجلس تعلیم کے ناظم حسین احمد نے اپنے جواب میں واضح کیا کہ دارالعلوم میں انگریزی، ہندی، ریاضی، کمپیوٹر سائنس جیسے مضامین کی تعلیم پہلے سے دی جارہی ہے اور کسی بھی زبان کے سیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند نے انگریزی کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے۔ مدرسہ کے قوانین پر عمل نہ کرنے والے کا ادارے سے اخراج کردینے کی وارننگ دی گئی ہے۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے اقلیتی وزیر مملکت دانش آزاد نے کہا کہ اتر پردیش حکومت کی جانب سے گزشتہ سال غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرایا گیا تھا جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ نیپال سے ملحقہ اضلاع میں غیر تسلیم شدہ مدارس کی پوری تعداد ٹریپ ہے۔

سرکاری مدد سے چلنے والے یوپی کے مدارس میں مخصوص مذہب کی تعلیم دیئے جانے پر الہ آباد ہائی کورٹ نے مرکز اور یوپی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔