Bharat Express

Haryana

میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کی دیر رات ایس ٹی ایف میرٹھ کو خفیہ اطلاع ملی کہ بدمعاش شاملی کے جھنجھانا علاقے میں لوٹ کی نیت سے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد ایس ٹی ایف کی ٹیم موقع پر پہنچ گئی۔ ایس ٹی ایف ذرائع کے مطابق ٹیم نے کار کو آتے دیکھا تو اسے روکنے کی کوشش کی، اس دوران کار سواروں نے فائرنگ شروع کر دی۔

ہندوستانی محکمہ موسمیات (IMD) کے مطابق ’’ویسٹرن ڈسٹربنس کی وجہ سے ہندوستان کے موسم میں اچانک تبدیلی آرہی ہے۔ اس کا اثر آئندہ چند دنوں میں مزید شدت اختیار کرنے کا امکان ہے۔

بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم چودھری دیوی لال کے بیٹے اوم پرکاش چوٹالہ ہریانہ کے ساتویں وزیر اعلیٰ رہے تھے۔ وہ یکم جنوری 1935 کو سرسا کے گاؤں چوٹالہ میں پیدا ہوئےتھے۔

عدالت نے مزید کہا کہ پنجاب کے حلف نامے میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ گاؤں کی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹی کب بنی اور نوڈل افسر کب مقرر ہوئے۔ حکومت نے یہ حکم کب پاس کیا؟ اگر یہ کمیٹی بنی تھی تو اس نے اب تک کیا کیا؟

ہریانہ کی تمام سیٹوں پر ایک ہی مرحلے میں 5 اکتوبر کو ووٹنگ ہوئی تھی۔ رجحانات میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان مقابلہ دیکھا جا رہا ہے۔ بی جے پی ہیٹ ٹرک کا دعویٰ کر رہی ہے۔ جبکہ کانگریس دس سال بعد اقتدار میں واپسی کی امید کر رہی ہے۔

ہریانہ کی اسمبلی انتخابات کے ووٹوں کی گنتی جاری ہے اوردوپہر تک ووٹوں کی گنتی میں کانگریس کو بڑا جھٹکا لگتا ہوا دکھائی دے رہا ہے چونکہ یہاں کانگریس 36 سیٹوں پر ہی آگے ہے، جبکہ بی جے پی 48 سیٹوں پر آگے دکھائی دے رہی ہے۔یعنی ہریانہ میں بی جے پی اپنے دم پر حکومت بناتی دکھائی دے رہی ہے۔

واضح رہے کہ جموں کشمیر میں اسمبلی کی 90 سیٹیں ہیں جہاں اکثریت یا حکومت سازی کیلئے 46 سیٹیں درکار ہیں ۔ ہریانہ میں بھی کچھ ایسی ہی تصویر ہے جہاں کل سیٹیں 90 ہیں جبکہ اکثریت کیلئے یہاں بھی 46 سیٹوں کی ضرورت ہوگی۔

بتادیں کہ جموں کشمیر میں اسمبلی کی 90 سیٹیں ہیں جہاں اکثریت یا حکومت سازی کیلئے 46 سیٹیں درکار ہیں ۔ ہریانہ میں بھی کچھ ایسی ہی تصویر ہے جہاں کل سیٹیں 90 ہیں جبکہ اکثریت کیلئے یہاں بھی 46 سیٹوں کی ضرورت ہوگی۔

ہریانہ اسمبلی انتخابات کے لیے ووٹنگ ہفتے کی شام کو ختم ہوئی اور نتائج کا اعلان منگل کو کیا جائے گا۔

ہریانہ میں پہلی بار 5 بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس، بی جے پی، جننائک جنتا پارٹی (جے جے پی)، انڈین نیشنل لوک دل (آئی این ایل ڈی) اور عام آدمی پارٹی (عآپ) انتخابی میدان میں ہیں۔