سپریم کورٹ
ملک کی سب سے بڑی عدالت فیصلہ کرنے جا رہی ہے کہ سابق مسلمانوں پر شرعی قانون لاگو ہوگا یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے کیرالہ کی ایک خاتون کی جانب سے دائر درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ مستقبل میں خاتون کی جائیداد اس کے والد کے بھائیوں کے خاندان کے ہاتھ لگ سکتی ہے۔ عدالت اس معاملے کی اگلی سماعت جولائی میں کرے گی۔
سپریم کورٹ نے اہم معاملہ بتا یا۔
اسے ایک اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ ایک قانونی افسر مقرر کریں جو سپریم کورٹ کی معاونت کرے۔ یہ درخواست صفیہ پی ایم نے دائر کی ہے۔ صفیہ ایکس مسلمس آف کیرالہ تنظیم کی جنرل سکریٹری ہیں۔ صفیہ نے درخواست میں کہا ہے کہ جو لوگ دین اسلام کو چھوڑ کر شریعت کے بجائے ہندوستان کے سیکولر قانون کے تحت آنا چاہتے ہیں، انہیں ایسا کرنے کی اجازت دی جائے۔ کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا بنیادی حق دیتا ہے۔ یہ مضمون یہ حق بھی دیتا ہے کہ کوئی چاہے تو ملحد ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود، صرف اس وجہ سے کہ کوئی شخص کسی خاص مذہب کے ماننے والے خاندان میں پیدا ہوا ہے، اس لیے کسی کو اس مذہب کے ذاتی قوانین پر عمل کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔
وراثت اور وصیت کا حق
وکیل نے یہ بھی کہا کہ اگر درخواست گزار اور اس کے والد نے تحریری طور پر کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہے، تب بھی اس کے رشتہ داروں کا اس کی جائیداد پر دعویٰ ہے۔ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ شریعت کی دفعات کی وجہ سے اس کے والد اسے چاہیں بھی اپنی جائیداد کا ایک تہائی سے زیادہ نہیں دے سکتے۔
درخواست گزار کے مطابق اس کے مسلمان والد نے باضابطہ طور پر مذہب نہیں چھوڑا، اس لیے انہیں اپنی بیٹی کے حقوق کے تحفظ میں پریشانی کا سامنا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس پر شرعی قانون نافذ نہ کیا جائے لیکن قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی ایک ایسا خلا ہے جس پر صرف عدلیہ ہی کچھ کر سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ No Religion or No Caste کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتا ہے، تب بھی وہ ہندوستان کے سیکولر قانون کے تحت وراثت اور وراثت کا حقدار نہیں ہوگا۔
بھارت ایکسپریس۔