رجنیش پانڈے/ لکھنؤ
اب کھیتی باڑی میں کیڑے مار ادویات کا بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ زیادہ تر کسان کیڑے مار دوا چھڑکتے وقت ماسک، دستانے یا چشمہ نہیں پہنتے۔ کیڑے مار ادویات اور کیمیکلز کی نمائش کسانوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو آنکھوں کے مسائل، کھانسی اور دمہ جیسے مسائل کا سامنا کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ کئی لوگ گردے فیل بھی ہوتے ہیں لیکن معلومات کی کمی کی وجہ سے وہ اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ کھیتوں میں جو دوائیں ڈالی جا رہی ہیں ان میں دوا کم اور زہر زیادہ ہے۔ نہ صرف کھیتوں میں کام کرنے والے کسان بلکہ ان کے خاندان والے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
بھارت ایکسپریس نیوز نیٹ ورک نے لوہیا انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ نیفرولوجی کی پروفیسر نمرتا راؤ اور کئی دوسرے ماہرین سے کھیتوں میں استعمال ہونے والے کیڑے مار ادویات کے مضر اثرات کے بارے میں بات کی۔ نیفرولوجسٹ پروفیسر نمرتا راؤ نے کہا کہ وہ گردے کے 100 مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں جو پوروانچل کے کئی اضلاع بشمول لکھنؤ، بارہ بنکی، گونڈا، اعظم گڑھ اور دیوریا سے علاج کے لیے آتے ہیں۔
ماہرین امراض چشم کے مطابق زراعت میں کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کرنے والے کئی کسانوں کے گردے فیل ہو گئے۔ انہیں اس کا علم تک نہیں تھا۔ کوئی علامات نہیں دیکھی گئیں۔ بعد میں جب ان کی طبیعت خراب ہوئی تو ان کا کیس لوہیا انسٹی ٹیوٹ لایا گیا اور ان کے خون اور پیشاب میں کیڑے مار دوا پائی گئی۔
پروفیسر نمرتا راؤ کہتی ہیں، ’’ہم کسانوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کھیتوں یں کیڑے مار ادویات کا کم استعمال کریں۔ اور، جب بھی آپ کریں، احتیاط کے ساتھ کریں۔ اگر آپ ماسک یا دستانے پہنے بغیر فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا استعمال کرتے ہیں تو اس کے برے اثرات ہوں گے۔
پروفیسر نمرتا راؤ کے مطابق، ’’گردے فیل ہونے کا مسئلہ لکھنؤ، بارہ بنکی سے لے کر اتر پردیش کے پوروانچل تک کسانوں میں زیادہ پایا گیا ہے۔ ان کسانوں کے پیشاب میں کیڑے مار دوا کی دوگنی مقدار پائی گئی۔ پوچھ گچھ کے دوران معلوم ہوا کہ یہ وہی کسان ہیں جو اپنی فصلوں پر خود ہی کیڑے مار دوا چھڑکتے ہیں۔ “معلومات کی کمی کی وجہ سے، وہ حفاظتی معیارات پر بھی عمل نہیں کرتے۔” انہوں نے بتایا کہ او پی ڈی میں گردوں کا علاج کروانے والے کسانوں کے اہل خانہ کا بھی معائنہ کیا گیا۔ پھر ان کے پیشاب میں بھی یہی کیمیکل ملا۔
پروفیسر نمرتا راؤ، نیفرولوجسٹ، لوہیا انسٹی ٹیوٹ، لکھنؤ
پروفیسر نمرتا راؤ کا کہنا ہے کہ لوہیا انسٹی ٹیوٹ میں کی گئی یہ تحقیق اور اس کا تحقیقی مقالہ حال ہی میں جریدے ’ٹیکسیکولوجی اینڈ انوائرمنٹ ہیلتھ سائنس‘ میں شائع ہوا ہے۔ اب اسے ادارے کے ریسرچ شوکیس میں بہترین کے طور پر منتخب کیا گیا۔
بھارت ایکسپریس۔