Junaid Nasir Murder Case: اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے جنید-ناصر قتل کیس کا معاملہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر ہریانہ حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان دونوں کو اغوا کرنے کے لیے جس گاڑی کا استعمال کیا گیا وہ ہریانہ حکومت کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے حکومت پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام بھی لگایا ہے۔
اسدالدین اوسی کا کہنا ہے کہ کئی دوسرے گئو جرائم میں بھی اس گاڑی کا استعمال ہوا ہے۔ مسلمانوں کو نہ صرف حکومت کی رضامندی سے بلکہ اس کی سرپرستی سے بھی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔۔ گئو رکشک، مذہب تبدیلی قانون یہ سب بہانے ہیں۔ گئو مافیہ اور دوسرے جرائم کو ان قوانین کے ذریعہ ‘لیٹرل انٹری’ مل گئی ہے۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم پر اویسی نے کیا کہا؟
اتنا ہی نہیں اسداالدین اویسی نے پی ایم مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کے تنازع کو لے کر بھی مرکز کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بی بی سی کی 2002 کے قتل عام کی فلم پر پابندی لگ جاتی ہے، لیکن لیٹرل والے اپنے کارناموں کو یوٹیوب اور فیس بک پر ڈال دیتے ہیں ،کیونکہ وہ بی جے پی کی روح ہیں۔۔ گزشتہ دنوں راجستھان کے ضلع بھرت پور کے پہاڑی قصبے گھاٹمیکا گاؤں کے دو نوجوانوں کو اغوا کر کے جلانے کا معاملہ (جنید ناصر قتل کیس) منظر عام پر آیا تھا۔
जुनैद-नासेर को अगवा करने में जिस गाड़ी का इस्तेमाल हुआ था, वो गाड़ी हरियाणा सरकार के नाम पर रजिस्टर है। कई दूसरे गौ-अपराध में भी इस गाड़ी का इस्तेमाल हुआ है। ना सिर्फ़ सरकार की सहमति से बल्कि सरपरस्ती में मुसलमानों को हिंसा का निशाना बनाया जा रहा है। 1/2 https://t.co/ER74XupbKX
— Asaduddin Owaisi (@asadowaisi) February 24, 2023
بھیوانی میں 16 فروری کو بولیروںمیں ملی تھیں دو جلی لاشیں
آپ کو بتادیں کے 16 فروری کو ہریانہ کے بھیوانی میں ایک جلی ہوئی بولیرو میں دو جلی ہوئی لاشیں برامد ہوئی تھیں۔ اطلاع ملتے ہیں پولیس موقع پر پہنچ گئی ۔دونوں مرنے والے نوجوان راجستھان کے بھرت پور کے رہنے والے تھے۔فوت ہونے والے دونوں نوجوانوں کے گھروالوں نے 15 فروری کو ناصر اور جنید کے اغوا ہونے کی شکایت پولیس میں درج کرائی تھی۔اس کے ساتھ ہی بھیوانی اور بھرت پور پولیس بھی تفتیش میں لگ گئی ۔
متوفی کے رشتہ داروں نے الزام لگایا ہے کہ دونوں کو بجرنگ دل کے کارکنوں نے بھرت پور سے اغوا کیا تھا اور زندہ جلا دیا تھا۔ دونوں کی لاشیں بھرت پور سے تقریباً 200 کلومیٹر دور بھیوانی کے لوہارو میں ملی ہیں۔
مقتول کے کزن خالد نے گوپال گڑھ پولیس اسٹیشن میں شکایت دی تھی کہ اس کے دو کزن جنید اور ناصر ہریانہ کے فیروز پور میں کسی کام سے نکلے تھے۔ نامعلوم شخص نے اسے بتایا کہ بولیرو کار میں سوار کچھ لوگ لڑتے جھگڑتے دو لوگوں کو جنگل کی طرف لے گئے۔
جب وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ گوپال گڑھ کے پیروکا جنگل میں پہنچا تو اسے وہاں کار کے ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑے ملے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہریانہ کے رہنے والے انیل، سری کانت، رنکو سینی، لوکیش سنگلا، مونو بولیرو کار میں سوار دو لوگوں سے لڑ رہے تھے۔ وہ اسے اسی گاڑی میں لے گئے۔
راجستھان کے 40 پولیس اہلکاروں پر مقدمہ
بھیوانی واقعے کے بعد ہریانہ کی نوح پولیس نے بچے کی موت کے معاملے میں راجستھان کے پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ آئی پی سی کی دفعہ 312، 148، 149، 323، 353، 354 اور 452 کے تحت نگینہ پولیس اسٹیشن میں تقریباً 40 نامعلوم پولیس والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایک ملزم شری کانت کی ماں دلاری دیوی نے راجستھان پولیس پر سنگین الزامات لگائے تھے۔ اس نے کہا تھا کہ ان کے دو بیٹوں کو راجستھان پولیس نے اغوا کر لیا تھا اور ان کی بہو کو مارا پیٹا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا بچہ مر گیا۔ ڈیلیوری کے بعد مردہ بچہ پیدا ہوا۔ خواتین کمیشن نے ہریانہ حکومت سے اس معاملے میں مقدمہ درج کرنے کو بھی کہا تھا۔شریکانت پنڈت مونو مانیسر کی سربراہی والے گو رکشا گروپ کے رکن ہیں۔