اسرائیل حماس جنگ: ہندوستان کیوں رہے محتاط؟
مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات اور تناؤ کو ختم کرکے امن قائم کرنے کی کوششوں کو 7 اکتوبر کو گہرا دھچکا لگا۔ اسرائیل پر حملہ کرکے فلسطینی تنظیم حماس نے ایک ایسی آگ بھڑکا دی ہے جس کے شعلے عرب ممالک سے ہوتے ہوئے ہندوستان تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اسرائیل پر حماس کے وحشیانہ حملے کے بعد پی ایم مودی نے حماس کے حملے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اس مشکل وقت میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ حماس کے حملے کو دہشت گرد حملہ قرار دینا اور اسرائیل کی کھل کر حمایت کرنا بھارت کی بدلی ہوئی پالیسی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بھی بات کی اور فلسطین کے لیے انسانی امداد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ واضح رہے کہ ہندوستان اب بھی فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے لیکن حماس کی حمایت نہیں کرتا۔
لیکن اسرائیل کے ساتھ بھارت کی بڑھتی ہوئی قربت کسی سے چھپی نہیں ہے جس کی وجوہات بھی ہیں۔ اقتصادی، ٹیکنالوجی اور سائنس کے ساتھ ساتھ دفاعی شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتا تعاون تو بڑی وجہ ہے ہی، لیکن دہشت گردی کا شکار دونوں ممالک کی بڑھتی ہوئی قربت کو اس کا عملی نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
درحقیقت اسرائیل اور حماس کا تنازع دو قوموں کے درمیان نہیں بلکہ قومیتوں کے درمیان ہے۔ اس لڑائی کی ایک وسیع مذہبی بنیاد بھی ہے۔ پوری دنیا کے یہودی اسرائیل کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف اقوام سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلمان مذہبی بنیادوں پر فلسطین کی حمایت کرتے ہیں جس کے لیے حماس نے مسلح جدوجہد کا راستہ چنا ہے۔ فلسطین کے لیے مسلمانوں کی حمایت میں اتار چڑھاؤ کی بنیاد یہ ہے کہ شیعہ سنی اور مختلف حکومتوں کے اپنے اپنے قومی مفادات ہیں لیکن عام مسلمانوں میں فلسطین کے لیے گہری ہمدردی ہے۔
مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہندوستان میں رہتی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ باقی آبادی فلسطین کے لیے کھڑی ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے یا اسی طرح یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے دو قوموں کا اصول ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔ اس اصول کے تحت انگریزوں نے فلسطین کے اندر اسرائیل نامی یہودی قوم بنائی اور یہودیوں کو آباد کیا۔ ہندوستان کی سیاسی قیادت دو قومی نظریہ کے خلاف تھی، پھر بھی اس نے بالآخر پاکستان بننےکی اجازت دینے کی صورتحال کو قبول کرلیا۔ جب ہندو اور مسلمان دونوں نے منقسم ہندوستان میں ہم آہنگی سے رہنا شروع کیا تو اس کی وجہ دو قومی نظریہ کو مسترد کرنے کا فیصلہ رہا ہے۔
بھارت پر اسرائیل حماس جنگ کے اثرات کے پیچھے مندرجہ بالا تاریخی وجوہات واضح طور پر ہیں۔ اس کے بعد کے حالات نے بھی ہمیں کسی نہ کسی طرح اسرائیل اور فلسطین سے جڑے رکھا۔ لیکن، اگر ہم تھوڑا سا واضح طور پر سمجھیں تو، ان دنوں ہندوستان میں ہندو راشٹر کے شور کے پیچھے ہندوستان پاکستان کی شکل میں دو قومی اصول کو مکمل تسلیم کرنے کی ضد ہے۔ اس کا ایک اور مطلب یہ ہے کہ جدید ہندوستان میں دوقومی اصول کو قبول نہ کرنے کی سیاسی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ تاہم یہ سوچ آئینی طور پر تبدیل نہیں ہوئی۔ نظریات کی یہ کشمکش ہندوستان میں وہی ماحول پیدا کرتی ہے جو اسرائیل اور فلسطین کی سرزمین پر مسخ شدہ شکل میں نظر آ رہا ہے۔
حال ہی میں کیرالہ میں سلسلہ وار دھماکوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایک بار تو یوں لگا جیسے حماس یا اس کے حامیوں نے یہ کارروائی کی ہو۔ جس آسانی کے ساتھ ملک نے حماس کو اس دھماکے کا ذمہ دار تسلیم کیا، اس سے خطرہ ہے کہ مستقبل میں ہندوستان کی سرزمین اسرائیل حماس تنازعہ کی گرمی برداشت کر سکتی ہے۔ تاہم خطرے کا خدشہ بے بنیاد نہیں ہے۔ دھماکے سے ٹھیک پہلے ملپورم میں حماس کمانڈر کی ورچوئل ریلی تشویشناک ہے۔ فلسطین کے حامی ہندوستانی کب اسرائیل اور حماس کے وحشیانہ حملوں پر دو فریق بن جائیں، کہنا مشکل ہے ۔
ہندوستانی ہندو اور مسلمان ایک طویل عرصے سے ایک ساتھ رہنے کے عادی ہیں۔ چھوٹے بڑے فسادات اور کشیدگی کے چند واقعات کے درمیان اگر تسلسل کسی بات کی ہے تو وہ ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی ہے۔ لیکن، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامو فوبیا یا ہندو فوبیا فیکٹر کسی بھی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان سے باہر کی طاقتیں اس میں زیادہ سرگرم رہی ہیں۔ ہندوستان کے شمال میں جموں و کشمیر میں طویل بدامنی کی وجہ ہندوستان مخالف قوتوں کی سرگرمیاں تھیں۔ اب اسی طرح کی طاقتیں دور افتادہ جنوبی ریاست کیرالہ میں بھی اپنی موجودگی پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حماس سمیت تمام انتہا پسند اسلامی تنظیمیں ‘مسلمان خطرے میں ہیں’ کا نعرہ بلند کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی جوڑ سکتے ہیں۔
ہندوستان میں کوئی بھی دہشت گردانہ حملہ ہندو مسلم اتحاد پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ ایسے حملوں سے اسلامو فوبیا کے جذبات کو تقویت دینے والی سیاسی قوتیں متحرک ہو جائیں گے۔ اس سے ردعمل پیدا کرنا ہی تخریب کار عناصر کا مقصد ہے۔ وہ ہندوؤں کا خوف دکھا کر اپنی فعالیت بڑھانے کا موقع تلاش کریں گے۔
حالیہ دنوں میں دنیا کی جغرافیائی سیاسی صورتحال میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس سے ہندوستان پر اسرائیل اور حماس کے تنازع کے برے اثرات کے خوف کو بھی تقویت ملتی ہے۔ چین اب سپر پاور ہے اور بھارت کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ساتھ ہی چین بھی ہندوستان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو نظر انداز نہیں کرتا۔ ون بیلٹ ون روڈ پہل کے ذریعے چین کے تجارتی فوائد کے جواب میں، ہندوستان نے بھی انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور شروع کیا ہے۔ چین کے ساتھ ساتھ روس، ایران، پاکستان جیسے ممالک ہیں جب کہ بدلے ہوئے حالات میں بھارت امریکہ، یورپ، جاپان اور آسٹریلیا والے خیمے میں کھڑا نظر آیا ہے۔ حالانکہ، بھارت نے ہمیشہ خیمے سے غیر جانبداری کا اظہار کیا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں ہندوستان کا موقف اس کا ثبوت ہے۔ لیکن حماس کے وحشیانہ حملوں کے خلاف اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کرکے ہندوستان نے اس روایت کو بھی توڑ دیا ہے جس میں وہ ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
جیسے جیسے اسرائیل اور حماس کا تنازع آگے بڑھ رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ بھارت یا تو غیر جانبدار رہے گا یا اسرائیل کے خلاف کھڑا نہیں ہوگا۔ بھارت نے بھی اقوام متحدہ میں غزہ تنازعہ پر اردن کی طرف سے لائی گئی قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر غیر جانبداری دکھانے کی کوشش بھی کی ہے۔
بھارت کے اس موقف کا استعمال چین-روس-ایران کی قیادت والا گروپ کر سکتا ہے۔ اسرائیل حماس جنگ کے حوالے سے بھارت میں دو دھڑے ابھر آئے ہیں، ایک اسرائیل حامی اور دوسرا اسرائیل مخالف۔ ظاہر ہے کہ بھارت مخالف طاقتیں اسرائیل مخالف قوتوں کو ہوا دے کر دہشت گردوں کا رخ بھارت کی طرف موڑ سکتی ہیں۔ اس سے دہشت گرد تنظیموں کو ہندوستان کے اندر جو فلسطین حامی جذبات ہیں، اس کا کھل کر استعمال کرنے کو موقع ملے گا، جو ملک کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔
ایسی صورتحال میں بھارتی سیکورٹی ایجنسیاں الرٹ رہ سکتی ہیں۔ ایسے واقعات کا بروقت اندازہ بھی لگایا سکتی ہیں۔ لیکن، جب دہشت گردی کے واقعات کے لیے زمین زرخیز ہو جائے تو پھر سیکورٹی اداروں کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں کیونکہ ان کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردی کسی قوم کے تعاون کے بغیر پنپتی نہیں ہے۔ اس لیے ہم صرف سیکورٹی اداروں پر انحصار کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حاصل نہیں کرسکتے۔ ایسے میں جیو پولیٹیکل صورتحال میں خود کو مضبوط کرنا اور دہشت گردی کا استعمال ہندوستان کے خلاف نہیں ہونے دینے کی سفارتی گارنٹی دینا ہی ایسے میں صحیح راستہ ہو سکتا ہے۔
جمہوری ملک میں انتخابات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ الیکشن جیتنا ہر سیاسی جماعت کا مقصد ہوتا ہے۔ اس کے لیے پالیسیوں سے سمجھوتہ تک کر لیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے دوران دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے کا خدشہ رہتا ہے۔ دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ، کالی کرنسی کی تجارت اس وقت تک پنپ نہیں سکتی جب تک سیاست اپنے مفادات پر آنکھیں نہ بند کر لے۔ آنکھیں بند کرنے کی یہ بیماری انتخابات کے دوران ہندوستانی سیاست میں وبائی شکل اختیار کرتی رہی ہے۔
اسرائیل اور حماس تنازعہ بھارت میں دہشت گردی کی واحد وجہ نہیں ہے۔ یہ سرحدی علاقوں میں دوسری شکلوں میں بھی موجود ہے۔ خالصتانی عناصر جہاں پنجاب کی سرحد پر سرگرم ہیں وہیں غیر ملکی طاقتیں شمال مشرق کی سرحد پر بھی سرگرم ہیں۔ جموں و کشمیر کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جہاں بھی دہشت گردی کا خطرہ ہے وہاں منشیات کا کاروبار پہلے ہی پہنچ چکا ہوتا ہے۔ پھر ہتھیار آتے ہیں۔ یہاں تک کہ خودکش دستے بھی تیار کر لیے جاتے ہیں۔ ہندوستان 2014 تک اس مرحلے سے نکل آیا تھا۔ اس کے باوجود پلوامہ، پٹھان کوٹ جیسے واقعات رونما ہو جاتی ہیں۔ شمال مشرق میں بھی دہشت گردی نسلی تصادم کی شکل میں پھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حماس اسرائیل تنازع کے بعد ہندوستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کی نظر ہے۔
بھارت ایکسپریس۔