بھارت میں گدھوں کی تعداد میں کمی کی کیا ہے وجہ ؟
Number of donkeys in India: کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت میں گدھوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اگر یہ حالت جاری رہی تو ماہرین کے مطابق آنے والے 20 سالوں میں ہم چڑیا گھر جیسی جگہوں پر بھی اس نوع کو نہیں دیکھ سکیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ بھارت میں گدھوں کی تعداد مسلسل کم کیوں ہو رہی ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ بھارت میں گدھوں کی بلیک مارکیٹنگ پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دیتا اور دوسرا یہ کہ بھارت میں گدھوں کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں گدھوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
گدھا – گدھا گھوڑے کی ایک ذیلی نسل ، Asinus کلاس کا جانورہے۔ ہندوستان میں اس جانور کو زیادہ تر دھوبی اور کمہار پالتے ہیں۔ لیکن آج کل یہ بھٹوں پر اینٹیں لے جانے اور فوج میں سامان لے جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گدھے کا نام سنتے ہی ہم ایک ہی اندازہ لگا تے ہیں، وہ ہے، احمق یا بےوقوف۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گدھا گھوڑے سے زیادہ ذہین ہوتا ہے۔ سمت اور راستے کے لحاظ سے گدھوں کی یادداشت گھوڑوں سے بہتر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکیلا گدھا کوئی بھی سامان تقریباً 15 کلومیٹر تک لے جا سکتا ہے۔ گدھے میں حیرت انگیز برداشت کرنے کی قوت ہوتی ہے۔ ہندوستان کے قدیم ادب میں گدھوں کے بارے میں کئی محاورے لکھے گئے ہیں جن سے گدھوں کی اہمیت اور افادیت کا پتہ چلتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں- The secret behind the long queues at Kake Da Hotel in Connaught Place:کناٹ پلیس کے کاکے دا ہوٹل پر لمبی قطاروں کا راز!
ایک ہی تھےگدھے اور گھوڑوں کے آباؤ اجداد
ہزاروں سال پہلے گدھوں اور گھوڑوں کے آباؤ اجداد ایک جیسے تھے۔ جنگلی گدھے کی دو مختلف اقسام ہیں۔ ایشیائی پرجاتیاں اور افریقی پرجاتیاں۔ایشیائی پرجاتیوں کی شاخ بحیرہ احمر سے لے کر شمالی ہندوستان اور تبت تک پھیلے ہوئے علاقے سے آئی ہے جہاں گدھوں نے خودکو سخت آب و ہوا اور اونچائیوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آج ایشیائی جنگلی گدھے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ افریقی پرجاتیوں کی شاخ شمالی ساحل میں بحیرہ روم اور صحارا ریگستان کے جنوب میں بحیرہ احمر تک پائی جاتی ہے۔ لیکن افریقی گدھے کی دو مختلف اقسام بھی ہیں۔ نیوبین جنگلی گدھا اور صومالی جنگلی گدھا۔ یہی وجہ ہے کہ جینیاتی تحقیق میں گدھوں کو افریقی نسل کا جانور قرار دیا گیا ہے لیکن ان کے پالنے کے وقت اور جگہ کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مناسب نہیں۔ 2002 میں مصر میں امریکی ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے ایک شاہی قبرستان کی کھدائی کی تھی جس میں انہیں گدھوں کے کنکال ملے تھے۔ حالانکہ انہیں گدھوں کے کنکال ملنے کی قطعاً کوئی امید نہیں تھی۔ کمال یہ تھا کہ ان گدھوں کو اس طرح دفنایا گیا تھاجیسے یہ کوئی اعلیٰ اہلکار ہوں۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ کنکال پانچ ہزار سال پہلے گدھوں کے پالے جانے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ تقریباً 2000 سال قبل گدھوں کو تجارتی سامان کے عوض بحرالکاہل سے بحیرہ روم تک ریشم لے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
بھارت میں گدھے کی پرورش
آندھرا پردیش، تامل ناڈو، مدھیہ پردیش، گجرات، راجستھان اور دیگر ریاستوں میں گدھے پالنے والوں کے مختلف گاؤں ہیں۔ بھارت واحد ملک ہے جہاں میلوں کی اہمیت گدھوں کے بغیر ادھوری ہے۔ یہاں تک کہ کچھ خاص میلے صرف گدھوں اور گھوڑوں کے لیے ہوتے ہیں، جیسے بارہ بنکی میلہ یا دیوا میلہ، جو ہر سال اکتوبر کے مہینے میں لکھنؤ کے قریب دیوا شریف شہر میں پورے چاند سے تقریباً ایک ہفتہ قبل ہوتا ہے۔ دھولیرا کے قریب سابرمتی اور وترک ندیوں کے سنگم پر واقع واؤتھا گاؤں پانچ روزہ مویشیوں کے میلے کی میزبانی کرتا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ بھارت کا سب سے بڑا گدھوں کا میلہ ہے۔ اسی طرح اجین، سون پور، بھاو گڑھ بندھیا (جے پور)، پشکر، ناگور، جھالاواڑ، گنگاپور (بھیلواڑہ)، کولیت میلہ (بیکانیر) اور آگرہ کے قریب ،ٹیشور میلہ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے دیگر غیر معروف مویشی میلے جیسے کرولی مویشی میلہ، نلواری مویشی میلہ، کنڈا میلہ، رام دیو کیٹل میلہ اور کولکنڈہ کیٹل میلہ وغیرہ بھی منعقد ہوتے ہیں، جہاں گدھوں کی ایک خاص اہمیت ہے۔
پچھلے 7 سالوں میں 6 لاکھ کی کمی
20ویں مویشیوں کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں گھوڑوں، گدھوں اور خچروں کی تعداد میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے۔ پچھلے سات سالوں (2012-19) میں ان کی تعداد میں 6 لاکھ کی کمی آئی ہے۔ جدید گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اینٹوں کے بھٹوں میں کام کی عدم دستیابی کے باعث لوگوں نے ان کو اپنانا کم کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں گدھوں کی تعداد کم ہو رہی ہے کیونکہ چین میں گدھوں کی کھالوں کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے گدھوں کی بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔ چین میں روایتی ادویات بنانے میں ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مویشیوں کی مردم شماری ہر چھ سال بعد کی جاتی ہے۔ مویشیوں کی مردم شماری 2019 کے مطابق ملک میں اس وقت 5 لاکھ 40 ہزار گھوڑے، گدھے اور خچر موجود ہیں جب کہ مویشیوں کی مردم شماری 2012 میں ان کی تعداد 11 لاکھ 40 ہزار تھی۔ 20ویں مویشیوں کی مردم شماری کے مطابق ملک میں گھوڑوں اور ٹٹووں کی تعداد 3 لاکھ 40 ہزار ہے جبکہ اس سے قبل یہ تعداد 6 لاکھ 40 ہزار تھی۔ اس کے ساتھ ہی خچروں کی کل تعداد کم ہو کر 80 ہزار رہ گئی ہے جو پہلے 2 لاکھ تھی۔ گدھوں کی تعداد سب سے کم ہوئی ہے۔ 2019 کی مویشیوں کی مردم شماری کے مطابق گدھوں کی تعداد 1 لاکھ 20 ہزار ہے جب کہ پہلے یہ تعداد 3 لاکھ 20 ہزار تھی۔
حکومت اور عام شہریوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ آنے والے وقت میں ہم دیکھیں گے کہ بھارت سے گدھوں کی نسل ہی ختم چکی ہے۔
-بھارت ایکسپریس