یکساں سول کوڈ پر بی جے پی کے حمایتی چھوڑ رہے ہیں ساتھ
یکساں سول کوڈ پرمودی حکومت کے اقدام نے ایک بار پھر ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ یو سی سی پروزیر اعظم مودی کے بیان کے بعد مسلسل سیاسی بیانات سامنے آرہے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے یو سی سی پر احتجاج درج کرنے کے لیے ایک خط بھی جاری کیا ہے جس میں ایک کیو آر کوڈ بھی دیا گیا ہے۔ جہاں بی جے پی اسے ملک کے مفاد میں بتا رہی ہے وہیں کئی مسلم لیڈر اسے اسلام کو تباہ کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ اب مسلم لیڈروں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے اتحادی بھی اس کے خلاف آگئے ہیں ۔ یو سی سی کے معاملے پر بی جے پی اب اکیلی دکھائی دے رہی ہے۔ تمل ناڈو میں بی جے پی کی حلیف پی ایم کے بھی مخالف گروپ میں شامل ہو گئی ہے۔
قومی اتحاد اور ترقی مخالف ہے یو سی سی:پی ایم کے
پی ایم کے کا کہنا ہے کہ یو سی سی قومی یکجہتی اور ترقی کے خلاف ہے۔ پی ایم کے سربراہ نے لا کمیشن کے چیئرمین کو خط بھی لکھا ہے۔ ادھر اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ 14 جون 2023 کو لاء کمیشن نے لوگوں اور پارٹیوں سے یو سی سی پر اپنی رائے دینے کو کہا تھا، جس کے بارے میں ہم نے اپنی پارٹی کی جانب سے ایک خط بھیجا ہے۔ میں نے کہا ہے کہ لاء کمیشن وضاحت کرے کہ یو سی سی کیا ہے۔ اویسی نے کہا کہ یہ بڑے اتفاق کی بات ہے کہ 2018 میں بھی مودی نے یو سی سی کے بارے میں بات کرنا شروع کی کیونکہ 2019 میں انتخابات تھے اور اب 2024 میں الیکشن ہیں، اس لیے انہوں نے دوبارہ یو سی سی پر بات شروع کی۔ اس سے قبل شمال مشرقی ریاست میگھالیہ میں بی جے پی کی حلیف این پی پی نے بھی اس کی مخالفت کی تھی۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ پی ایم مودی کی پارٹی بی جے پی 2024 کے انتخابات سے قبل ووٹروں کو پولرائز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری طرف سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کا ایجنڈا طے کر لیا ہے۔
یکساں سول کوڈ کیا ہے؟
یکساں سول کوڈ کا مطلب ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے ہر شہری کے لیے مساوی قانون ہونا چاہے وہ کسی بھی مذہب یا ذات سے ہو۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے تمام مذاہب کے لیے ایک قانون ہوگا۔ شادی، طلاق، گود لینے اور زمین اور جائیداد کی تقسیم میں ایک ہی قانون تمام مذاہب پرلاگو ہوگا۔
یو سی سی سے متعلق آئین میں کیا ہے؟
دستو ہند کا آرٹیکل 44 یکساں سول کوڈ کے بارے میں بات کرتا ہے۔ اس کے مطابق ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں سول قانون بنایا جائے۔ اگرچہ حکومتوں اور شہریوں کو ان کی پیروی کرنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے، لیکن یہ لازمی نہیں ہیں۔ مودی حکومت نے اسے ملک میں نافذ کرنے کے لیے تجاویز مانگی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسے 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے لاگو کیا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں کو اعتراض کیوں؟
بتاتے چلیں کہ مسلم رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ یو سی سی کے نفاذ سے آئین میں دیے گئے مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہوگی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے لا کمیشن کو اپنا موقف پہنچا دیا ہے۔ بورڈ نے کہا کہ یو سی سی پرسنل لاء بورڈ اور شرعی قانون کے تحت نہیں ہیں۔ اس لیے بورڈ کی طرف سے اس کی مخالفت جائز ہے۔ ساتھ ہی ملک کی سرکردہ مسلم تنظیم جمعیت علمائے ہند نے بھی یو سی سی کو شہریوں کی مذہبی آزادی پر پابندی لگانے کی دانستہ کوشش قرار دیا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔