Bharat Express

Jamaat-e-Islami Hind Two Days meeting: وقف امور سے متعلق جماعت اسلامی ہند کا دو روزہ اجلاس

اوقاف کے امورومعاملات سے واقفیت اوراس سے متعلق جملہ کاموں کو بہتراندازمیں انجام دینے کے طریقہ کارپرغوروفکراورتبادلہ خیال کے لئے جماعت اسلامی ہند کے تحت ذمہ دارانِ حلقہ وشعبہ اوقاف کا ایک دو روزہ تنطیمی و تفہیمی اجلاس مرکز، نئی دہلی میں منعقد ہوا۔

نئی دہلی: اوقاف کے امورومعاملات سے واقفیت اوراس سے متعلق جملہ کاموں کو بہتراندازمیں انجام دینے کے طریقہ کارپرغوروفکراورتبادلہ خیال کے لئے جماعت اسلامی ہند کے تحت ذمہ دارانِ حلقہ وشعبہ اوقاف کا ایک دو روزہ تنطیمی و تفہیمی اجلاس مرکز، نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ اس اہم اجلاس میں 13 حلقوں سے اوقاف کے تئیں سرگرم تقریباً 25 ذمہ داروں نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں وقف سے متعلق اہم موضوعات پرتفصیلی گفتگوکی گئی۔ نیزجائزہ رپورٹیں پیش کی گئیں اور مذاکرہ ہوا۔ اس موقع پرامیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کلیدی خطاب پیش کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ “وقف اسلام کا ایک اہم ادارہ ہے۔ عام طور پر صرف اس کے افادی پہلو پرنظر ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وقف اسلام کے پورے معاشی تصوراوراسلامی نظام معاشیات کا ایک بہت ہی اہم ستون بھی ہے۔

سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ دولت مند افراد سماج کی کسی خاص ضرورت کی تکمیل کے لئے مال وجائئداد وقف کیا کرتے تھے۔ دنیا میں سب سے زیادہ وقف کی جائدادیں ہندوستان میں ہے۔ پورے اوقاف کے 70 فیصد تا 80 فیصد حصہ وقف بورڈ کے کنڑول کے باہرہے اوربقیہ 20 فیصد تا 30 فیصد حصہ جو وقف بورڈ کے ماتحت ہے وہ بھی بد   انتظامی اورcorruption کا شکار ہے۔ اس لیے وقف کی حفاظت، اس کا revival اور اس کو بچائے رکھنا یہ پوری ملت کی ایک اہم ذمہ داری اور فرض کفایہ ہے۔ اس کو ادا کرنے کے لئے ہم کو بہت ہی سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے کرنے کا ضروری کام ہے اس کے تئیں بیداری لانا، دوسرا اہم کام حکومت کے اقدامات، عدالتوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اور میڈیا میں جو discourse چل رہا ہے اس پرنظررکھنا اورتیسرا اہم کام ریاستی وقف بورڈ کوفعال کرنے کی کوشش کرنا ہے۔”
ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی نے وقف کی شرعی حیثیت کے عنوان پربات کرتے ہوئے کہا کہ “وقف خدمت خلق کی ایک مخصوص صورت ہے، جس پر قرآن و حدیث میں ترغیب آئی ہے۔ وقف کا سلسلہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوگیا تھا۔ ہرزمانے اورہرعلاقے میں مسلم حکمرانوں اوراصحاب ثروت نے بڑی بڑی جائدادیں وقف کی ہیں۔ وقف جس کام کے لئے کیا جائے، اسی کام میں اسے جاری رکھنا ضروری ہے”۔
ڈاکٹرمحی الدین غازی نے دوسرے دن کی تذکیرمیں فرمایا کہ اپنی قیمتی جائیداد کو نیکی کے کاموں کے لئے وقف کرنا معمولی بات نہیں ہے، نیکی کا سچا اورگہرا جذبہ اس کا محرک ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ جس جذبے سے جائیداد کووقف کیا گیا ہے، اسی جذبے سے وقف کی جائیدادوں کی حفاظت و نگہداشت بھی کی جائے۔ اسی صورت میں وقف کی برکتوں سے سماج بہرہ مند ہوسکے گا۔ وقف کی نگرانی بہت بڑی ذمے داری ہے اور اس میں لاپرواہی یا کوتاہی بہت بڑی خیانت ہے”.
اجلاس میں سید محمود اختر(سابق ڈائیریکڑ، وزارت اقلیتی امور، حکومت ہند)، ڈاکٹرظفرمحمود (صدر، زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا)، اکرم الجبار( سابق انکم ٹیکس کمشنر، مہاراشٹر)، محمد افضال الحق (اسسٹنٹ لا آفیسر، سنٹرل وقف کونسل)، جاوید احمد (وقف ویلفیئرفورم)، حسیب احمد (سابق جوائنٹ سکریڑی، منسٹری آف ایجوکیشن)، اڈوکیٹ اسلم احمد، اڈوکیٹ رئیس احمد اورانتظارنعیم (سابق اسسٹنٹ سکریڑی، جماعت اسلامی ہند) نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا۔
قابل مقررین نے ملک میں وقف کی موجودہ صورت حال، تحفظ اوقاف اوراس کے عملی تدابیر، وقف قوانین، وقف سروے اور وقف سے متعلق معلومات کی فراہمی وغیرہ کے موضوعات پر بہت اہم گفتگو کی، جس سے شرکاء خوب مستفید ہوئے اورانہیں ہندوستان میں اوقاف کے مسائل اوران کے حل کے متعلق بہت اہم رہنمائی ملی۔ اس پروگرام کوکامیاب بنانے میں سکریٹری شعبہ اوقاف عبد الرفیق اوراسسٹنٹ سکریٹری انعام الرحمٰن خاں نے اہم رول ادا کیا۔

  -بھارت ایکسپریس

Also Read