قرآن کانفرنس: ایک تجزیاتی جائزہ
کالم نگار: ٹی این بھارتی نئی دہلی
Quraan Conference: گزشتہ ماہ مورخہ ستائیس اکتوبر 2024 بروز اتوار کو قرآن کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا ۔ زمانہ طالب علمی سے ہی قرآن کانفرنس میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہے۔ قرآن اکیڈمی کے بانی اور ذاکر حسین کالج دہلی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پرنسپل ڈاکٹر اسلم پرویز کی جانب سے ہر برس دہلی میں قرآن کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ چار عالم دین کو عوام سے خطاب کرنے کی دعوت دی جاتی ہے جو قران و حدیث کی روشنی میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک مو ضو عات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔نظامت کی باگ ڈور ڈاکٹر اسلم پرویز کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ موصوف نہایت شفقت اور پر خلوص انداز میں شرکاء محفل کا استقبال و شکریہ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔کانفرنس کا آغاز حسب دستور تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا ۔ ایوان غالب نئی دہلی میں منعقد ہوئی اس تقریب میں خواتین و مرد حضرات ایک ہی آڈیٹوریم میں اکٹھے شریک ہوئے ۔ صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک پابندی وقت کا خاص خیال رکھا گیا ۔
آئیے اب اسلامی مفکر ین کے خیا لات کا جائزہ لیا جائے…
پریا گ راج اتر پردیش کی خاتون مفکر
ڈاکٹر نو رینہ پروین نے انسانی زندگی کے اصول عنوان کے تحت خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قرآن ایک ایسا ہدایت نامہ ہے جس پر عمل کرنے والوں کا کبھی خسارہ نہیں ہوتا ۔اللہ کے نزدیک تمام مخلوق محترم ہے۔ تمام جانداروں میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا گیا۔ انسان کو ایک مقررہ وقت کے لئے روئے زمین میں پناہ دی گئ۔ ہر انسان کی صلاحیت ایک دوسرے سے جدا ہے۔ انسانیت کے اعتبار سے سب کو ایک ہی مادہ سے تخلیق کیا گیا لیکن ہم انسانیت کی سطح پر تقسیم کر دئے گئے ہیں۔عورت مرد میں فرق ، امیر غریب میں فرق، ذات پات میں فرق ، مسلک میں فرق کر تے ہیں جبکہ قرآن مجید میں تفریق کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ا للہ نے کسی کو کسی پر افضل یا کم تر قرار نہیں دیا لیکن تقوی کی بنیاد پر زمرے تقسیم کئے گئے ہیں اللہ پر تقوی رکھنے والا سب سے مقدم ہے۔چنانچہ تقوی کے مطابق زندگی گزارنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے ڈاکٹر نورینہ نے پر زور انداز میں کہا کہ عدل و انصاف کئے بغیر کوئی بھی معاشرہ یا ملک پائدار نہیں ہو سکتا ۔انہوں نے کہا کہ عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ پڑوسیوں، ر شتہ داروں، غریب و مسکین اور مسافروں کی حق تلفی نہ کی جائے۔ فضول خرچی سے بچنا چاہیے ذرائع پیداوار کی تقسیم کا طریقہ قرآن و حدیث کی روشنی میں کرنا چاہئے ۔ خواہش نفس کے لئے نا انصافی نہیں کرنا چاہیے۔
رامپور اتر پردیش کے سماجی کارکن اور اسلامی محقق ڈاکٹر سید عبداللہ طارق نے تناؤ بھری زندگی میں قرآن کا حصہ موضوع پرتبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ دور حاضر میں تناؤ ، ذہنی انتشار نے چہار سو اپنی جڑیں پھیلا کر انسانی زندگی کو پا مال کر دیا ہے ۔ غم اندر سے آتا ہے اور احساس خوف و دہشت مستقبل سے پیدا ہوتا ہے جو واقعہ پیش ہی نہیں آیا اس کے بارے میں سوچنا سب سے بڑا زہر آلود تناؤ ہے ۔عبداللہ طارق نے کہا کہ تناؤ دور کرنے کے لئے قرآن کریم میں ارشاد باری ہے کہ شکر گزاری کا دامن مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اللہ فرما تا ہے پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور نا شکری نہ کرو ۔ ہمیں اللہ کے عطا کردہ انعامات یاد رکھنے چاہیے۔
کائنات کے ذرہ ذرہ میں لاتعداد نعمتوں کا خزانہ مو جود ہے لہذا اللہ کی اطاعت و شکر گزاری لازم و ملزوم ہے ۔پریشانی کے عالم میں ہمیں منفی سوچ اختیار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔ دل کی پاکیزگی کے لئےا یک دوسرے کے عیبوں کی پردہ پوشی کرنے سے تناؤ کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ غلطی سر زد ہونے پر معافی مانگ کر ذہنی ا نتشار کو دور کیا جا سکتا ہے۔ بغض، کینہ، غیبت سے دور رہنا چاہیے ۔
ڈاکٹر سید عبداللہ طارق نے منکرانہ انداز میں نماز کو مراقبہ کی شکل میں پیش کر تے ہوئے کہا کہ تاریک کمرے میں بند آنکھوں سے عبادت کرنے سے سکون حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ موصوف نے سورہ الضحی بمع تر جمہ ویڈیو کے دوران جلسہ گاہ کے شرکاء سے آنکھیں بند کرنے کی ناقص ہدایت کی تو اس وقت راقم الحروف کو آر آر ایس کے معروف رہنما اندریش کمار کی رکشا بندھن کی تقریب ذہن میں آ گئی۔ راشٹریہ مسلم ایکتا منچ کے روح رواں اندریش کمار نے ایوان غالب کے آڈیٹوریم میں ز ہنی تناؤ دور کرنے کے لئے رکشا بندھن کے تہوار پر مسلم خواتین کو بند آنکھوں سے لمبی سانس کھینچ کر اوم شانتی اوم کا جاپ کرنے کے لئے کہا اور تمام مسلم خواتین نے سیاسی لیڈر اندریش کمار کے سر میں سر ملا دیا ۔ بقول عبداللہ طارق مراقبہ یعنی Meditation سے ہی ذہنی امراض کا خاتمہ ممکن ہے ۔راقم الحروف نے جب بند آنکھوں سے عبادت کرنے کی مخالفت کی تو موصوف نے جارہانہ انداز میں جواب دیا کہ قرآن کانفرنس سے خالی ہاتھ گھر واپس جا ؤ گی ۔ انہوں نے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہا کہ Meditation کی وجہ سے ہی ان کی زندگی سے تناؤ ختم ہوا ہے۔ قابل فکر المیہ ہے کہ جلسہ گاہ میں تشریف فرما بزرگان دین کے ہمراہ ڈاکٹر اسلم پرویز نے بھی بند آنکھ سے خود کو مراقبہ کے حوالے کر دیا جبکہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی مراقبہ کی تلقین نہیں کی گئ تو قرا ن کانفرنس میں نئی نسل کو گمراہی کا راستہ اختیار کرنے کی اپیل کیوں کی گئی ؟ قرآن کانفرنس میں قرآن کے خلاف آواز بلند کیوں کی گئی ؟ نماز یا دعا بند آنکھوں سے کرنا جائز نہیں تو اندھی عبادت کی طرف ذہن کیوں راغب کیا گیا ؟ مشرکانہ حرکت پر لگام کیوں نہیں لگائی گئی ؟ ڈاکٹر سید عبداللہ طارق کی ہدایت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے نا چیز کھلی آنکھوں سے لاحول ولا قوۃ کا ورد کرتی رہی۔ پھر دل کو تسلی دی ضروری نہیں کہ عالم کی ہر بات درست ہو۔
چینئی کے نامور تاجر اور سماجی کارکن الیاس محمد مشتاق نے قرآن سے کامیابی موضوع کے حوالے سے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی برس سے بچوں کو عربی زبان سکھانے میں مشغول ہیں تاکہ قرآن مجید اپنی مادری زبان میں سمجھ کر عمل کیا جا سکے۔ غور طلب ہے کہ آسمانی صحیفوں کو ہم صرف تعظیم کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے ۔ مشتاق نے کہا کہ قرآن کو سرچ انجن کی طرح سمجھ کر ورد کرنے سے ہر ایک مسئلہ کا حل ممکن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حرص و ہوس کے بغیر ایمانداری اور محنت لگن سے کام کرنے کے عوض ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ منفی خیالات کی جگہ ایک درخت کے مانند زندگی گزارو جو بلا مذہب و ملت کی تفریق کے ہندو ، مسلم ،سکھ ، عیسائی سب کو سایہ دیتا ہے ۔ مصیبت کے وقت قرآن کریم کے مطابق اخلاقی اقدار کو شامل حال رکھ کر صبر و ضبط سے کام لینا اشد ضروری ہے۔
ا صلاح معاشرہ کے علم بردار ڈاکٹر عقیل احمد نے دین میں دنیا کی اہمیت اور ہماری ذمے داریاں عنوان کے حوالے سے کہا کہ روزمرہ کی زندگی میں دین دنیا کثیرالاستعمال لفظ ہے قرآن مجید عالم کا ئنات کے لئے نیکی امن و آشتی کا پیغام لے کر آیا ۔ پیغمبر اسلام پر قرآن نازل ہونے کا واحد مقصد ہے کہ زندگی کے مسائل کا حل قرآن کریم میں تلاش کر یں اور ا نسانیت کی راہ پر گامزن رہیں ۔ دین دنیا کی آسا ئش حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے پانچ ارکان کے ساتھ حقوق العباد کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں ۔ اللہ نے مومن کے لئے دین کے ساتھ دنیا کی لذت بھی عطا کی ہے چنانچہ دنیا میں رہ کر آخرت کے لئے نامہ اعمال تیار کرنے کی طرف متوجہ ہو نا چاہیے۔
اس موقع پر قرآن اکیڈمی کے بانی ڈاکٹر اسلم پرویز نے فرد اساس ہے : ا مت کو بنا دینا ہے موضوع کے تحت پر مغز تقریر کے دوران کہا کہ قرآن کریم فرد سازی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ ہر ایک فرد کو قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قرآن کریم کا پیغام عوام تک پہچانا چاہیے۔ قرآن کریم تمام انسانوں کے لئے راہ ہدایت ہے یہ صرف مسلمانوں کی مذہبی کتاب نہیں ہے۔ صداقت کے آمین پیغمبر اسلام نے قرآن مجید کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کی مساوات کا سبق سکھایا دشمن کے ساتھ بھی خو ش اخلا قی سے پیش آنے کا درس دیا۔ اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا ہی دراصل تقوی ہے ۔خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے اللہ کے احکام پر چلنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر اسلم پرویز نے کردار سازی، والدین کے حقوق، اولاد کے اپنے والدین کے تئیں سلوک، معاشرہ میں موبائل کی فتنہ گری کا بچوں پر اثر وغیرہ موضوع کی بھی عکاسی کی۔ تقریب میں صبح سے شام تک حاضرین موجود رہے وضو و نماز کا بہترین انتظام کیا گیا۔
آئیے اب ذرا قرآن کانفرنس کی انتظامیہ پر سرسری نگاہ ڈالی جائے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کے مطابق کانفرنس کے لئے انھیں خدائی مدد ملتی ہے تقریب پرخرچ ہونے والی بھاری رقم کا انتظام موصوف کے دوست احباب کرتے ہیں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا بھی عین عبادت ہے۔ ڈاکٹر اسلم کا کہنا ہے دین کا داعی کوئی دوست آڈیٹوریم کا کرایہ ، کوئی پینے کا پانی ، کوئی دوست کافی مشین ، کوئی دوست کھانے کے ڈبہ بند پیکٹ کوئی فرنیچر کا تو کوئی اشتہار پر اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چو کھا محاورہ کے مصداق ڈاکٹر اسلم پرویز اور انکی ٹیم بظاہر قرآن کریم کا پیغام پہچانے میں کامیاب رہی۔
تجاویز: کانفرنس کے دوران سوال و جواب کے لئے وقت رکھنا چاہیے سامعین کے خد شات پر نظر ثانی ضرو ری ہے۔ اسلامی مفکر ین کی ایک طرفہ تقریر کے بعد حاضرین جلسہ کو بھی اپنی بات رکھنے کا موقع ملنا چاہئے حقوق العباد کے پیش نظر کانفرنس کے بجٹ میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی پر تعینات نو جوان بے روزگار غریب لڑ کے لڑکیوں کو معقول اجرت دینا اشد ضروری ہے۔ نیز اخباری نمائندوں کے لئے بھی رقم مختص کرنا چاہیے صحافیوں کو پین اور ڈائری بھی دینا چاہئے۔ منکرانہ مزاج کے مقرر کو کانفرنس میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔ بریانی کے سو گرام پیکیٹ کی مقدار بڑھا کر پانچ سو گرام کرنا چاہیے سات گھنٹے کی تقر یب میں سو گرام چاول کافی نہیں۔علاوہ ازیں چائے وقفہ میں کافی کے ساتھ نمکین بسکٹ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کھانے کے پیکٹ سب کے لئے ہونے چاہیے ڈیوٹی کر رہے کچھ افراد کو کھانا نہیں مل سکا توانھیں چھو لے قلچہ کھاتے دیکھا گیا۔
نوٹ : کالم نویس کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
-بھارت ایکسپریس