Bharat Express

The fight against foreign interference in India’s electoral process: ہندوستان کے انتخابی عمل میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف جنگ

ڈیجیٹل دور میں وہی کھلاپن جو ہندوستان جیسی جمہوریتوں کا تصور سامنے لاتا ہے اور اسے خوش حال بناتا ہے، وہ متضاد طور پر تکلیف دہ بن گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان ان جدید ترین غیر ملکی مداخلت کی مہموں کا ہدف بن گیا ہے، جو انٹرنیٹ کی وسیع رسائی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کی طاقت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

تحریر: ششی شیکھر ویمپتی، دوردرشن کے سابق سی ای او

 

The fight against foreign interference in India’s electoral process: گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہندوستانی پارلیمنٹ کے انتخابات عالمی ذرائع ابلاغ جیسے فنانشل ٹائمز، بلومبرگ، الجزیرہ، یو کے گارڈین، دی اکانومسٹ میگزین اور دیگر کی مداخلتوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ میڈیا آؤٹ لیٹس میں ان مداخلتوں کے لہجے اور انداز میں ہندوستانی جمہوریت کی صحت کے تعلق سے مایوسی کے اظہار سے لے کر اس کے مستقبل کے بارے میں خوفناک پیشین گوئیاں کرنے تک بہت کچھ مشترک ہے۔ خاص طور پر تشویش کی بات وہ انداز ہے جس میں عالمی میڈیا کی مداخلتوں نے ہندوستان میں سیاسی فالٹ لائنوں کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شمال اور جنوب کی تقسیم کا تصور کرنے سے لے کر آزاد آئینی اداروں جیسے عدلیہ اور انتخابی نگراں اداروں کی سالمیت کو نقصان پہنچانے تک، ان غیر ملکی مداخلتوں نے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالے جانے سے قبل ہی انتخابی نتائج کے منصفانہ ہونے پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔

ڈیجیٹل دور میں وہی کھلاپن جو ہندوستان جیسی جمہوریتوں کا تصور سامنے لاتا ہے اور اسے خوش حال بناتا ہے، وہ متضاد طور پر تکلیف دہ بن گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان ان جدید ترین غیر ملکی مداخلت کی مہموں کا ہدف بن گیا ہے، جو انٹرنیٹ کی وسیع رسائی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کی طاقت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بھارت اس میں اکیلا نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کی متعدد غیر ملکی مداخلت کی کارروائیوں نے دنیا بھر میں انتخابی عمل کے تقدس کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مثال کے طور پر کینیڈا اور آسٹریلیا میں ایسی کارروائیاں انتہا پر پہنچ گئی ہیں، جس میں چینی اثر و رسوخ والی فنڈنگ اور پروپیگنڈا پھیلانے کے دستاویزی معاملات اجاگر ہوئے ہیں۔

ان کارروائیوں کی حکمت عملی پریشان کن حد تک اثرانداز ہونے والی ہے، جن میں غلط معلومات پھیلانا، اختلاف کا بیج بونا اور سیاسی نتائج کو باریکی کے ساتھ متاثر کرنا شامل ہیں۔ یہ سب کام رڈار کے نیچے رہ کر کئے جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہی پلے بک ہندوستان میں بھی تعینات کیا گیا ہے، جہاں مائیکروسافٹ نے ڈیپ- فیک اور اے آئی کے بدنیتی پر مبنی استعمال کے ذریعے چین سے ہندوستانی انتخابات کو لاحق خطرات کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ کینیڈا میں، تارکین وطن اور سیاسی شخصیات پر اثر انداز ہونے کی خفیہ کوششوں کی اطلاعات نے تشویش کو جنم دیا ہے۔ اسی طرح، آسٹریلیا نے اپنی سیاسی خودمختاری پر غیر ملکی مداخلت کے مضمرات کا سامنا کیا ہے، جس کی وجہ سے پالیسی میں اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں اور جاسوسی اور غیر ملکی مداخلت کے خلاف قوانین کو مضبوط بنانا پڑا ہے۔ یہ مثالیں محض چند انحرافات نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں جو چین جیسے ملکوں نے اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات کے مطابق عالمی نظام کو انتہائی نکتہ رسی سے نئی شکل دینے کے لیے استعمال کی ہیں۔

جمہوری نظاموں میں موجود کھلے پن اور آزادیوں کا استحصال کرتے ہوئے، یہ کارروائیاں نہ صرف خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جیسے جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں کے خلاف بے اطمینانی کے بیج بونے کی کوشش کرتے ہوئے جمہوری اداروں پر اعتماد کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، متحرک تارکین وطن اور متنوع و کھلے میڈیا منظرنامے کے طور پر ہندوستان خاص طور پر خطرات کی زد میں ہے۔ ہندوستان میں دنیا کا سب سے بڑا انتخابی عمل جاری ہے۔ یہ چیلنج جتنا پیچیدہ ہے اتنا ہی ضروری بھی ہے۔ بھارت کا انتہائی مسابقتی میڈیا منظر نامہ، اظہار خیال کی آزادی اور سیاسی وابستگی کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ مبالغہ آمیز میڈیا رپورٹوں اور پولرائزیشن والے سوشل میڈیا پوسٹوں سے متاثر کلک- بیٹ جرنلزم کے وسیع کلچر کے ساتھ غیرملکی مداخلت اور غلط اطلاعاتی مہمات کے لیے زرخیز زمین بن گیا ہے۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پراکسیز کے ذریعے کی جانے والی چینی فنڈنگ نے بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس میں اپنی راہ بنالی  ہے، جو انتہائی ہوشیاری کے ساتھ بیانیہ کو تبدیل کررہی ہے اور رائے عامہ کو متاثر کررہی ہے۔ نیوز کلک کو غیر ملکی فنڈنگ اور چین سے وابستہ تاجروں کے ساتھ روابط کا حالیہ معاملہ اس کی ایک اہم مثال ہے۔ عیاری سے کام لیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو جعلی ویڈیوز اور ڈیپ فیک مشمولات کو پھیلانے کے لیے ہتھیار بنا لیا گیا ہے، جس سے سچائی اور افسانہ طرازی کے درمیان کی لکیریں دھندلی ہوگئی ہیں۔ وزیر اعظم مودی اس طرح کے ڈیپ فیک کا شکار ہوئے ہیں۔ وہاٹس ایپ جیسی ذاتی پیغام رسانی والی ایپلی کیشنز کے ذریعے غلط معلومات کے بے تحاشہ پھیلاؤ نے انتخابی عمل میں اعتماد کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ رائے دہندگان کو گمراہ کرنے والے حربوں کا پتہ لگانا مشکل بنادیا ہے۔

بھارتی سیاست پر ان اقدامات کے نتائج بہت دور رس ہیں۔ معلومات کے ماحولیاتی نظام میں ہیرا پھیری کرکے، غیر ملکی عناصر گھریلو پلیئرز کی متعصبانہ سیاسی بیان بازی کا سہارا لے کر ہندوستان میں سماجی تقسیم کو بڑھا رہے ہیں۔ مایوس سیاسی جماعتیں اور سیاست دان جو ’’زمین کو جھلس دینے‘‘ کے حربے کا استعمال کر رہے ہیں انھیں اس بات کا احساس کم ہی ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کی صحت کے بارے میں ان کے مبالغہ آمیز اعلانات کا غیر ملکی عناصر ہندوستان کے جمہوری تانے بانے کو کمزور کرنے کے لیے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ عمل جمہوریت کے جوہر، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتائج پر اعتماد کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ ہندوستان کے انتخابی عمل کے تقدس کو سرحد پار ایجنٹوں کے ذریعہ ٹیکنالوجی کے بدنیتی پر مبنی استعمال سے بے مثال خطرات کا سامنا ہے، یہ فوری اور فیصلہ کن مداخلت کا وقت ہے۔ معلومات کی ترسیل میں موجود کمزوریوں کے خلاف اور انتخابی تقدس کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی الیکشن کمیشن کو، دیگر سرکاری اور غیر سرکاری حصص داروں کے ساتھ مل کر، ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کرنی چاہیے۔

الیکشن کمیشن کے کردار کے حوالے سے زیادہ تر توجہ مثالی ضابطہ اخلاق کے نفاذ پر مرکوز رہی ہے، جبکہ غیر ملکی مداخلت پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ غیر ملکی مداخلت اور غلط معلومات سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے، ہندوستانی الیکشن کمیشن کو سرگرمی کے ساتھ ووٹروں کو جعلی خبروں، بدنیتی پر مبنی ویڈیوز اور ڈیپ فیک میڈیا کی پہچان کرکے انھیں ختم کرنے کے لیے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے فیکٹ چیک یونٹس کو مؤثر ٹولز اور وسیع صلاحیت کے ساتھ بااختیار بنانا الیکشن کمیشن کی مضبوطی کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت کے لیے اہم ہے۔ اس سے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں اور وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی ایپلی کیشنز پر یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بغیر حفاظتی تدابیر کے اے آئی جیسی ٹیکنالوجیز کے استعمال میں تجربات کے لیے پیٹری- ڈش نہیں بنے گی۔ یہ لمحہ غیر ملکی مالی اعانت سے چلنے والے پروپیگنڈے کے اثر کو کم کرنے کے لیے فنڈنگ کے ذرائع کی شفافیت کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ غیر ملکی اثر و رسوخ والی کارروائیوں کی نگرانی اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مخصوص ٹاسک فورس سرحد پار سے ہندوستانی جمہوریت کو درپیش ڈیجیٹل خطرات سے نمٹنے کے لیے کافی مددگار ثابت ہوگی۔

ڈیجیٹل ہیرا پھیری سے متصف غیر ملکی مداخلت، انفرادی انتخابات کے نتائج اور جمہوری اداروں پر وسیع تر اعتماد کے لیے خطرے کا باعث بنتی ہے۔ سیاسی جماعتوں، میڈیا اداروں، سول سوسائٹی اور شہریوں کو انتخابی عمل کے تقدس کے دفاع کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔ چونکہ ہندوستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، اس لئے آج کئے گئے اقدامات نہ صرف ہماری جمہوریت کے مستقبل کا تعین کریں گے، بلکہ دنیا بھر کی جمہوریتوں کے لیے ایک مثال بھی قائم کریں گے۔ غیر ملکی مداخلت کے خلاف جنگ ان ابھرتے ہوئے خطرات کے سامنے ہماری جمہوری اقدار کے لچیلے پن کا ثبوت ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے ہندوستان کو ایک خودمختار، جمہوری ملک کے طور پر اپنے مستقبل کی حفاظت کے لیے جیتنا ضروری ہے۔ یہ جمہوریت کی بنیاد کے تحفظ کے لیے چوکسی، اتحاد اور فعال اقدامات کرنے کا صحیح وقت ہے۔ اب عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔

-بھارت ایکسپریس

Also Read